مس انگلینڈ کی دوڑ میں شریک ایک مسلمان امیدوار نے روایتی پیمانوں کو توڑتے ہوئے سوئم سوٹ مرحلے میں بکنی کے بجائے ویٹ سوٹ (ربڑ کے بنے تیراکی کے مکمل لباس) میں تصاویر بھیج کر فائنل کے لیے منتخب ہونے والی ٹاپ 20 امیدواروں میں جگہ بنا لی۔
مقابلے کے قوانین کے مطابق 2010 میں سوئم سوٹ راؤنڈ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن مقابلے میں حصہ لینے والی خواتین اختیاری طور پر مس بیچ بیوٹی کے مقابلے میں حصہ لے سکتی ہیں جن کو انعام میں موریشس کا دورہ کروایا جاتا ہے۔
اس مقابلے کی فاتح کو مس انگلینڈ کے لیے منتخب ٹاپ 20 میں بھی جگہ دی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
21 سالہ عائشہ خان برطانیہ میں لنکا شائر کے علاقے بلیک برن سے تعلق رکھتی ہیں۔ مقابلے میں شریک 49 امیدواروں میں سے عائشہ وہ واحد خاتون تھیں جنہوں نے مکمل سوئمنگ کاسٹیوم پہن کر مقابلے میں حصہ لیا۔ وہ یہ بتانا چاہتی تھیں کہ آپ کو پراعتماد نظر آنے کے لیے بکنی پہننا ضروری نہیں ہے۔
عائشہ خان کے مطابق وہ مقابلے میں شرکت کرنا چاہتی تھیں لیکن بکنی میں تصویر نہیں بھیجنا چاہتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے ویٹ سوٹ کے انوکھے خیال کے ساتھ مقابلے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے اپنی فیس بک پروفائل پر لکھا: ’میں نے مقابلے میں جیتنے کے لیے حصہ نہیں لیا، میں صرف تیراکی کے لباس پر اپنا موقف دینا چاہتی تھی۔‘
اخبار ’لنکا شائر ٹیلی گراف‘ سے بات کرتے ہوئے عائشہ خان نے کہا: ’میں اپنی روایات اور اپنی ذات سے جڑا رہنا چاہتی ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں لوگوں کو با اختیار کرنے کے لیے بھی کام کرنا چاہتی ہوں۔‘
انہوں نے کہا: ’میں چاہتی تھی کہ دنیا سوئم ویئر کو ایک الگ طرح سے دیکھے۔ آپ کو ساحل پر جانے کے لیے بکنی پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔ کم کپڑے پہننا یا زیادہ کپڑے پہننا باقی احساسات اور جذبات جتنا ہی با اختیار ہے۔ میرے خیال میں باقی لڑکیاں بھی یہ کر سکتی ہیں۔‘
مس لنکا شائر مقابلے کی فاتح عائشہ کو جب مس انگلینڈ ٹاپ 20 میں منتخب ہونے کی خبر ملی تو وہ خود بھی حیران رہ گئیں۔
عائشہ کہتی ہیں: ’تیراکی کے مکمل لباس کے ساتھ مقابلے میں شریک ہونا میری طرف سے ایک الگ طریقے سے اعتماد اور خود مختاری کا اظہار تھا۔‘
یکم اگست کو عائشہ نیو کیسل میں مس انگلینڈ کے مقابلے میں شریک ہوں گی۔ ان کے مطابق یہ خواتین کو اپنے انداز میں اظہار کی آزادی کے لیے اہم موقع فراہم کرے گا۔
عائشہ کے مطابق روایت میں ارتقا سے ہی وہ مس انگلینڈ کے مقابلے میں اس سادہ لباس کے ساتھ بھی شریک ہو سکی ہیں۔ فیس بک پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا: ’مس انگلینڈ کا مقابلہ مختلف طرزِ زندگی رکھنے والی خواتین کو موقع دیتا ہے کہ وہ اس مقابلے کا حصہ بن سکیں۔ مس انگلینڈ کا مقابلہ خواتین کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے انداز میں اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرسکیں، اسی انداز میں جس کو وہ پسند کرتی ہیں۔‘
فیس بک پر عائشہ کے اس پیغام کی تعریف کی جا رہی ہے۔
ایک صارف نے لکھا: ’مجھے آپ کا پیغام بہت پسند آیا ہے۔ میں بہت خوش ہوں کہ مس انگلینڈ اور مس لنکا شائر کے مقابلوں نے آپ کو ویسا ہی دکھایا ہے جیسی آپ ہیں۔‘
ایک اور صارف کا کہنا تھا: ’آپ بہت خوبصورت ہیں۔ یہ ساحل سمندر کی میری پسندیدہ تصویر ہے۔‘
اس سے قبل اپریل میں حلیمہ عدن نے اُس وقت تاریخ رقم کی تھی جب وہ ’سپورٹس السٹریٹڈ‘ میگزین کے شمارے میں برقعینی اور حجاب پر مبنی ویٹ سوٹ میں جلوہ افروز ہوئی تھیں۔
© The Independent