صوبہ سندھ ہمیشہ سے قدیم روایات اور ثقافتوں کا امین رہا ہے۔ یہاں آج بھی پرانے وقتوں کی روایات کسی نہ کسی طور پر زندہ ہیں۔
اس کی ایک مثال موئن جو دڑو کے آثار قدیمہ سے ملنے والے ایک عورت کے مجسمے کے بازوؤں میں پہنے ہوئے منفرد چوڑے ہیں۔
یہ چوڑے آج بھی صوبے خاص طور پر صحرائے تھر کے کچھ علاقوں میں زیر استعمال ہیں۔
ماضی قریب میں تھرپارکر سے تعلق رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کولہی جب حلف اٹھانے کی تقریب میں شریک ہوئیں تو انہوں نے خاص طور پر تھری لباس، کلائی اور بازوؤں میں یہی ثقافتی چوڑے پہن رکھے تھے۔
ان کے اس پہناوے کو سراہا بھی گیا لیکن اس کے باوجود ان چوڑوں کے استعمال میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی نظر آ رہی ہے۔
بھیم راج کھتری گذشتہ 50 سال سے چوڑے بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ لوگوں میں جس طرح شعور آیا ہے اور تعلیم عام ہوئی ہے، ان چوڑوں کے استعمال میں کمی ہوئی ہے۔
بقول بھیم راج: ’جب لوہے کے آلات نہیں تھے تو یہ (چوڑے) درخت سے بننے والے مخصوص جز (لات) سے بنائے جاتے تھے۔ اس کے بعد مہاراجوں اور مغلیہ دور میں یہ ہاتھی کے دانتوں سے بننے لگے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہاتھی کے دانت جنوبی افریقہ سے لائے جاتے تھے۔ ’قیام پاکستان کے بعد ہاتھی کے دانت آنا بند ہوئے تو یہ پلاسٹک سے بننے لگے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں ان چوڑوں کی طلب مزید بڑھی اور ان کا خام مال جرمنی سے لائے گئے مخصوص پائپ بنے۔
’ٹی وی آنے کے بعد ان کا فیشن ہوا اور ان میں نئی جدت آئی۔ یہی چوڑے مختلف رنگوں میں بننے لگے اور ان پر چمکیلی پٹیاں لگائی گئیں۔‘
بھیم راج کھتری کے مطابق نئے دور میں تعلیم عام ہوئی تو یہ پرانی روایت بھی دم توڑنے لگی۔
چوڑے خریدنے والے لاکھو بھیل نے بتایا کہ یہ مخصوص چوڑے ان کی برادری کی ثقافتی پہچان ہیں۔
’یہ شادی وغیرہ کی تقاریب میں استعمال ہوتے ہیں۔ جب دولہا دولہن کو لینے آتا ہے تو چوڑے بھی ساتھ لاتا ہے، جسے دلہن ساری عمر پہنے رکھتی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ خاوند کے گُزر جانے کے بعد عورت کے چوڑے اتار دیے جاتے ہیں۔
’یہ چوڑے علاقے کی ہندو اور مسلم برادری دونوں کے زیر استعمال تھے، لیکن اب یہ صرف عمرکوٹ، کہپرو، سانگھڑ اور سلام کوٹ مٹھی میں بھیل، کولہی، اوڈ اور لوہار برادری تک محدود ہو چکے ہیں۔‘