اردو میں چوڑیاں، پشتو میں بنگڑی، بلوچی میں بنگڑی اور گجراتی میں بنگی کہلانے والے زیور کو پنجابی میں ونگاں کہتے ہیں۔
آج کل دوست احباب کے ساتھ سوشل میڈیا کی دیواروں پر ہماری شادی کے چرچے ہیں۔ ایک لڑکی پسند آئی ہے۔ لڑکی کے گھر والے بھی آخر کار کچھ حیل و حجت کے بعد راضی ہو گئے ہیں۔ ہونے والی زوجہ محترمہ نے ایک چھوٹی سی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ آپ سونے کا زیادہ کچھ نہ لیجیے گا، بس ملتان میں جو سونے کی چوڑیاں یا کڑے بنتے ہیں وہی بنوا دیجیے گا۔
ساتھ یہ بھی کہا کہ ’آپ کی ہونے والی بیوی کے پاس بس چوڑیاں نہیں ہیں باقی سب کچھ ہے۔‘ جیسے ہی چوڑیاں سے متعلق معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں تو سر چکرا گیا، کیسی کیسی انواع و اقسام کی چوڑیاں دستیاب ہیں۔
برصغیر میں کلائی کی زیبائش کے لیے چوڑیاں زیب بازو کرنا صرف روایت ہی نہیں ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔ عام طور پر دھات، لکڑی، کانچ یا پلاسٹک سے بنی کڑی جسے کلائی پر پہنا جاتا ہے کو چوڑی یا ونگ کہا جاتا ہے۔ روایتی طور پر اسے پاکستان، بھارت، نیپال، اور بنگلہ دیش کی خواتین پہنتی ہیں۔
پاکستان میں اور بھارت میں چوڑیاں دو قسم کی زیادہ پہنی جاتی ہیں ایک سونے کی اور دوسری کانچ کی۔ سونے کی چوڑیاں شادی، بیاہ و دیگر تقریبات کا لازم و ملزوم جزو ہیں، جبکہ کانچ کی چوڑیاں کسی بھی تہوار پر سجنے سنورنے کے لیے خواتین پہنتی ہیں۔ کبھی دلہن کے لیے شیشے یا کانچ کی چوڑیاں ہوا کرتی تھیں لیکن اب معاشرہ اتنا مادہ پرست ہو گیا ہے کہ شادی پر سونے کی ہی چوڑیاں لازم و ملزوم سمجھ کر پہنی جاتی ہیں۔ ایک وقت تھا چاندی کی بھی چوڑیاں پہنی جاتی تھیں لیکن اب تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں، ایک تو چاندی کا مہنگا ہونا اور دوسرا اس کی جگہ سونے کی چوڑیوں کا رواج ہے۔
اگر کوئی گھرانہ سونے کی چوڑیاں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو کوئی بات نہیں بازار جائیں ایک سے بڑھ کر ایک سونے جیسی دھات کی سنہری چوڑیاں موجود ہیں سونے سے کہیں کم قیمت پر خریدیئے اور اپنے تہوار کو بہترین طریقے سے گزاریے۔
پڑوسی ملک بھارت میں سونے سے لدی دلہن کا رواج بہت زیادہ ہے۔ جو نچلے طبقے کے گھرانے ہیں وہ بھی جہیز میں سونے کی ہی چوڑیاں طلب کرتے ہیں اور ظلم یہ کہ جو بہو چوڑیاں لاتی ہے وہ کئی موقعوں پر لڑکے کے گھر والے ہتھیا کر اپنی بیٹی بیاہتے ہیں تو اس کو پہنا کر رخصت کر دیتے ہیں۔
ایم آر ملک اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ ’تاریخ کے اوراق میں یہ بھی ملتا ہے کہ شاہ جہاں کی بیوی ممتاز محل جس کے لیے شاہ جہان نے تاج محل بنوایا۔ ممتاز محل نے تخت نشینی کے بعد حاکم وقت شاہ جہاں سے کانچ کی چوڑیوں کی فرمائش کی۔ چہیتی ملکہ کی خواہش کی تکمیل کے لیے آگرہ کے تمام بازاروں میں ملازمین کو بھیجا، لیکن اس معیار کی چوڑیاں نہ ملیں جو بادشاہ کو پسند آتیں۔ بالآخر بادشاہ خود چوڑیوں کی تلاش میں نکلا تو فیروز آباد جا پہنچا، جہاں چوڑی بنانے کے کاریگر مل گئے جنہوں نے ملکہ کے لیے کانچ کی نفیس چوڑیاں تیار کیں۔ نازک اور جاذب نظر چوڑیاں لے کر بادشاہ واپس پہنچا اور اپنے ہاتھ سے اپنی ملکہ کی کلائیوں میں چوڑیاں پہنائیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیروزآباد پرانے وقتوں سے چوڑی سازی کا بڑا مرکز رہا ہے۔
پاکستان کے صوبے سندھ میں چوڑیوں کی ثقافت قدیمی ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں کی خواتین باقی تمام پاکستانی خواتین سے ہٹ کر چوڑیاں پہنتی ہیں۔ یہ پلاسٹک کی سفید چوڑیاں صرف کلائی نہیں بلکہ تقریباً پورے بازو میں پہنی جاتی ہیں، ان کو چوڑی نہیں بلکہ سندھی زبان میں یا مقامی ثقافت میں چوڑا کہا جاتا ہے۔
ایک دور ہوا کرتا تھا کہ بنجارے گاؤں گاؤں چوڑیاں بیچنے کے لیے چھابے سر پر رکھے گھومتے تھے۔ پھر بنجاروں کے خاندان اس کام میں پڑے اور بنجارن بھی سر پر چوڑیوں کا چھابہ دھرے ہر گلی، محلے پہنچ کر گھروں میں جاکر کانچ کی چوڑیاں بیچا کرتی تھیں، لیکن جیسے ہی یہ دیہات، گاؤں اور پھر شہروں کی شکل اختیار کرنے لگے ان کی جگہ بینگل ہاؤسسز نے لے لی۔
اور پھر یہ چوڑیاں اور کنگن مشہور کرنے میں جتنا ہاتھ نرم و نازک کلائیوں کا ہے اتنا ہی ہر عہد کے شعرا کا بھی ہے حد تو یہ ہے کہ وصی شاہ بھی کنگن پر شاعری کر کےشہرت کی بلندیوں پر پہچے (کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا۔ تو بڑے پیار سے بڑے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ۔ اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو)
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اور پھر پنجابی شاعروں نے کیا ہی کمال لکھا ہے:
چَھن چَھن چھنکن ونگاں نی میریاں
جِدروں وی میں لنگاں نی میریاں
چَھن چَھن چھنکن ونگاں۔۔۔۔۔۔
اے ونگاں شالا ٹُٹ نہ جاون
روز دعائیں منگاں نی میریاں
چَھن چَھن چھنکن ونگاں۔۔۔۔۔۔
یقین کیجئے اس کو پڑھنے اور سمجھنے کا مزہ اور لطف وہی لے سکتا ہے جو پنجابی سے مکمل طور پر واقف ہو۔
آپ بھی پڑھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ چوڑیوں کی چھوٹی سی معصومانہ خواہش پر بلاگ لکھ دیا، اتنا کچھ سرچ کر ڈالا ابھی سے ہونے والی بیوی کی اس قدر فرمانبرداری کی جا رہی ہے۔ تو خواتین و حضرات دراصل اچھے، سمجھدار مردوں کا یہی شیوہ ہے کہ وہ اپنی خانم سے وفاداری کے وعدے جو شادی سے پہلے کرتے ہیں آخر تک نبھاتے ہیں۔
ڈاکٹر مصطفی چمران کی ہی مثال لے لیجیے۔ ایران میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر مصطفیٰ چمران نے امریکا کی کیلی فورنیا یونیورسٹی اور برکلے یونیورسٹی میں الیکٹرونکس اور پلازما فزیکس کے شعبوں میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی لیکن انکی وجہ شہرت ڈاکٹری نہیں جنگ کا میدان ہے، امریکہ چھوڑ کر پہلے لبنان پھر ایران پہنچے۔ ایران عراق جنگ میں وزیر دفاع رہے لیکن آفس کے بجائے اگلے مورچوں پر رہتے تھے۔
جوانی کے دنوں میں جب لبنان میں تھے اور ’تحریکِ امل‘ کا حصہ تھے تو لبنان سے ایک دوشیزہ پسند آ گئی بغرض رشتہ ان کے گھر جا پہنچے خواستگاری کی تو لڑکی کی والدہ نے کہا دو شرائط پر بیٹی کی شادی آپ کیساتھ کرنے پر رضا مند ہوں۔
ڈاکٹر مصطفی چمران نے شرائط پوچھیں۔ لڑکی کی والدہ نے کہا، ’میری بیٹی نے کبھی اپنا بستر تہہ نہیں کیا اور ہمیشہ اس کو بستر پر ہی دودھ کا گلاس دیا گیا ہے اگر آپ یہ ذمہ داری اٹھا لیتے ہیں تو شادی کے لیے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘
ڈاکٹر مصطفی نے دونوں باتیں تا عمر نبھانے کی ہامی بھر لی، اور شادی کے بعد ہمیشہ اپنی خانم کو بستر پر دودھ کا گلاس دیتے اور ان کا بستر تہہ کرتے تھے۔
کافی عرصہ گزر گیا تو ایک دن ان کی زوجہ نے کہا، ’چمران بہت عرصہ ہو گیا اولاد بھی اب جوان ہو رہی ہے۔ یہ سب کرنا چھوڑ دیں۔‘
ڈاکٹر مصطفیٰ چمران بولے، ’آپ کی والدہ کے ساتھ وعدہ کیا تھا سو اس کو تا عمر نبھاتا رہوں گا۔‘
ہاتھ کے بناؤ سنگھار میں جتنا حصہ چوڑیوں اور کنگن کا ہے اتنا ہی مردوں کے لیے کڑے کا ہے، برصغیر میں مذہبی اعتبار سے بھی کڑے پہنے جاتے ہیں۔ سکھ مذہب میں دھاتی یا چاندی کا کڑا مذہبی لحاظ سے پنج ککار کا حصہ اور فرض ہے۔ سکھ مذہب میں، ایک سکھ دلہن کا باپ دولہا کو سونے کی انگوٹھی، ایک کڑا (فولاد یا آہنی چوڑی) اور ایک مہرا دیتا ہے۔ جبکہ صرف برصغیر کے کچھ شیعہ حضرات بھی اس کو مذہبی عقیدت کے تحت پہنتے ہیں۔ پھر دور بدلا تو اس کڑے کی جگہ بریسلیٹس نے لے لی اور اب زیادہ تر خواتین و مرد حضرات ہاتھوں میں سونے و چاندی کی برسلٹ پہنے نظر آتے ہیں یہ بھی فیشن کا ایک حصہ ہے۔
یہ تحریر پڑھ کر میرے ایک دوست نے پنجابی میں پیش گوئی کی، ’بہت رن مُرید ویکھے نیں، شیشہ وی ویکھیا، پر توں سب توں ودھ کے رن مرید بنیں گا۔‘
(بہت رن مرید دیکھے، آئینہ بھی دیکھا، لیکن تو سب سے بڑھ کے رن مرید بنے گا)