کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ کابل میں مذاکرات میں پشتون مشترکہ جرگے کے رابطہ کار بیرسٹر محمد علی سیف نے حالیہ ٹی وی انٹرویوز میں کہا ہے کہ مذاکرات کے لیے ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے ساتھ رابطے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
یہ بیان خیبر پختونخوا کے ضلع سوات اور دیگر علاقوں میں رواں ماہ تشدد کے واقعات کے بعد دیا گیا ہے۔
یکم جون کو جنگ بندی کے باوجود ٹی ٹی پی کی جانب سے تشدد کے واقعات کی ذمہ داری لینا حیران کن ہے۔ اگرچہ ٹی ٹی پی نے باضابطہ فائر بندی ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن حملوں کی وجہ سے فائربندی عملاً ختم ہو گئی ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق دہشت گردوں نے 13 ستمبر کو ضلع کرم کی خرلاچی سرحد کے قریب افغانستان کی حدود سے پاکستانی فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا، جس میں تین فوجیوں کی جانیں گئیں۔
ضلع سوات میں 13 ستمبر کو بم دھماکے کے نتیجے میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ ادریس خان اور دو پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد کو ہلاک کرنے کے واقعے کی ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔
سوات کے اسی واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی نے کسی حد تک اس علاقے میں حملوں کے لیے اپنا ایک نظام بحال کر لیا ہے کیونکہ سڑک کے کنارے بم دھماکہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔
دفاعی تجزیہ نگار اور پاکستانی فوج کے سابق بریگیڈیئر سید نظیر مہمند کے مطابق سڑک کے کنارے بم دھماکے میں کسی کو نشانہ بنانے کے لیے موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔
بریگیڈیئر سید نظیر نے 21 ستمبر کو انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر بتایا کہ ’اس طرح کی کارروائیوں کے لیے تکنیکی مہارت اور کئی افراد کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی ہدف کی نگرانی کرنا، بم تیار کرنا، بم کو کسی خاص مقام تک لے جانا، نصب کرنا اور دھماکہ کرنے کے لیے ریموٹ سے بم کو اڑانے کے لیے بھی ایک فرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کے حملے کرنے کے لیے ہدف کی تقریباً ایک ہفتے تک نگرانی کرنی پڑتی ہے۔‘
ویسے تو خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں میں پولیس اور فورسز پر حملے ہوئے ہیں لیکن سوات میں امن کمیٹیوں کے اراکین پر حملوں اور اغوا کی کارروائیوں کی شدت پورے ملک میں محسوس کی گئی۔
سوات میں رواں ہفتے ایک موبائل کمپنی کے عہدیداروں کا اغوا بھی تشویش ناک واقعہ تھا جن میں سے کئی کی رہائی کے لیے جرگے نے کردار ادا کیا۔ حالات کی نزاکت کی وجہ سے پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل حسن اظہر حیات کو 17 ستمبرکو سوات کا دورہ کرنا پڑا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کور کمانڈر نے سوات، مالاکنڈ، بونیر، شانگلہ اور مردان کے قبائلی عمائدین اور معززین کو سکیورٹی کا یقین دلایا۔
سوات کے ایک مقامی صحافی علی شیر میاں کے مطابق کئی علاقوں میں سکیورٹی فورسز نظر آ رہی ہیں، لیکن ان اقدامات سے شاید لوگوں کو زیادہ اطمینان حاصل نہ ہو سکے کیونکہ مقامی لوگ اب بھی کئی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کی موجودگی کی بات کرتے ہیں۔ دوسری جانب سکیورٹی فورسز کی بھاری تعداد میں موجودگی سے عوام کو پیغام جاتا ہے کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں جس کی وجہ سے اس قدر سکیورٹی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
سوات کے لوگوں نے دہشت گردی اور شدت پسندوں کے خلاف بڑے مظاہرے کرکے ٹی ٹی پی اور دیگر فریقین کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ کسی حال میں سوات میں دوبارہ 2009 والی صورت حال برداشت نہیں کریں گے۔
یہ بات حالیہ واقعات کو 2009 سے مختلف بنا دیتی ہے۔ پہلے لوگوں کے دلوں میں طالبان کا خوف تھا اور انہوں نے شدت پسندی کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے اس قسم کے مظاہرے یا احتجاج نہیں کیا تھا، لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوات کی سول سوسائٹی پوری طرح سے متحرک ہو چکی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ دوبارہ وہاں شدت پسند جڑیں پکڑ سکے۔
ویسے تو ٹی ٹی پی کا موقف ہے کہ ان کے حملے دفاع یا چھاپوں کے جواب میں کیے جاتے ہیں لیکن اس گروپ کی قیادت کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ امن کمیٹی کے سابق عہدیداروں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ ایسے واقعات امن مذاکرات کے لیے ایک دھچکا ثابت ہو سکتے ہیں۔
مراد سعید کے اہم سوالات
سوات سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے ایک مرکزی رہنما مراد سعید نے اسی ماہ ایک وائرل ویڈیو میں سوات میں ٹی ٹی پی کی آمد اور سرگرمیوں سے متعلق کئی سوالات اٹھائے ہیں، جن میں علاقے میں ایک نئے ’گیم‘ کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ آج کل پاکستان میں سیاسی تناؤ کی وجہ سے ہر چیز سیاست کی نذر ہو جاتی ہے اور بیانات سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود مراد سعید کے پوچھے گئے سوالات اہم ہیں اور انہیں نظر انداز کرنا غیر دانشمندی ہو گی۔
البتہ ایک سوال مراد سعید سے بھی بنتا ہے۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ سوات سے تعلق رکھنے والے ان کی پارٹی کے وزیراعلیٰ محمود خان کو کس نے ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی سے منع کیا ہے؟
جن اداروں سے سوالات پوچھے گئے ہیں انہیں جواب دینا چاہیے۔ مراد سعید نے یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ کابل میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں ان کی صوبائی حکومت کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ یہاں ایک سوال ضرور بنتا ہے کہ دہشت گردی سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے کی سیاسی قیادت کو کیوں مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا جاتا؟
اب تو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں رابطہ کار اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی بیرسٹر سیف نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ مذاکرات میں صوبائی حکومت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ایک عام شہری کی حیثیت سے مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں۔
اس طرح کے بیانات اہم مذاکراتی عمل کی اہمیت کو متاثر کر سکتے ہیں۔ میں نے پہلے ایک کالم میں لکھا تھا کہ مذاکرات میں میزبانی کرنے والے افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے مجھ سے جولائی میں ایک ملاقات میں پاکستانی وزرا کے بیانات پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
کیا ٹی ٹی پی سے مذاکرات بحال ہو سکتے ہیں؟
فائربندی کے باوجود خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی کے حملوں اور افغانستان میں 31 جولائی کے امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
افغان عبوری وزیر دفاع ملا یعقوب نے الزام لگایا تھا کہ امریکی ڈرون طیارے پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔ افغان طالبان کے ایک رہنما نے 21 ستمبر کو کابل سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ملا یعقوب کا بیان پوری اسلامی امارت کا موقف ہے۔‘
پاکستانی اور طالبان حکومت کے درمیان اس بد اعتمادی کے ماحول میں سراج الدین حقانی کے لیے مزید پاکستانی مذاکرات کی میزبانی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گی۔ ویسے بھی ڈرون حملے کے بعد طالبان حکومت کی اپنی مشکلات بڑھ گئی ہیں اور ان کی توجہ اپنے معاملات پر زیادہ ہے۔
ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے مابین مذاکرات سے باخبر قبائلی اضلاع کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ راؤنڈ کے بعد دونوں اطراف کا کوئی رابطہ نہیں ہوا اور مذاکرات ایک لحاظ سے معطل ہیں۔
پشتون جرگہ نے 29 اور 30 جولائی کو کابل میں ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔ اگست میں ٹی ٹی پی مذاکراتی ٹیم کے رکن اور اہم رہنما عبدالولی مہمند عرف عمر خالد خراسانی کی صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں اپنے داماد اور دو ساتھیوں سمیت ہلاکت سے ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
ٹی ٹی پی معاہدے سے پہلے ٹی ٹی پی کی واپسی
کابل میں پاکستانی ریاستی اداروں، پشتون جرگے اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کی واپسی ایجنڈے پر ہے لیکن ان کی واپسی کے طریقہ کار پر ابھی کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
مذاکرات سے باخبر افراد کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے رہنما اسلحے سمیت واپسی کے خواہش مند ہیں۔ اس تجویز کی اس دلیل کی بنیاد پر مخالفت کی گئی کہ مسلح واپسی ملک میں ماضی والی صورت حال پیدا کر دے گی۔
دوسری جانب ٹی ٹی پی کو خدشہ ہے کہ ان کے ہاتھوں بہت سے عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں تو انتقام کا امکان ہو سکتا ہے۔ اگر اس وقت تک ٹی ٹی پی کی واپسی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو ٹی ٹی پی کے لوگوں کی مختلف علاقوں میں موجودگی اور کارروائیوں سے متعلق تشویش بالکل جائز ہے، لیکن حکومتی سطح پر کسی واضح موقف کا نہ آنا ایک المیہ ہے۔