خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کے وفد میں شامل بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو تین ہفتوں سے ٹی ٹی پی مختلف علاقوں میں کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے اور ریاست بھی جوابی کارروائیاں کر رہی ہے جس کی وجہ سے دونوں طرف غصہ پایا جاتا ہے۔
سوات میں جاری امن و امان کی صورت حال پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل جاری ہے اور فائر بندی اس کا ایک جز ہے، تاہم ’مذاکراتی عمل کے دوران یہ عام بات ہے کہ جنگ بھی جاری رہتی ہے اور بات چیت بھی۔‘
بیرسٹر محمد علی سیف کابل میں جولائی میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے جانے والے ریاستی کمیٹی (جس کا حکومت کی جانب سے باظابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے) میں شامل ہیں۔ اس کمیٹی میں قبائلی اضلاع کے سینیٹرز اور قبائلی مشران بھی شامل ہیں۔
سیف کا کہنا تھا: ’ابھی تک ٹی ٹی پی اور نہ ہماری طرف سے فائربندی یا مذاکرات کا عمل ختم یا معطل نہیں کیا گیا ہے۔‘
ادھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ایک بیان میں گذشتہ روز ولایت ملاکنڈ کے ضلع سوات کی تحصیل چارباغ کے علاقے دکوڑک میں محمد شیرین نامی مخالف لشکر کے سربراہ کو قتل کرنے کا دعوی کیا ہے۔
بیرسٹر سیف نے بتایا: ’ہم نے ٹی ٹی پی کو یہ بات پہنچائی ہے کہ ان کی حالیہ کارروائیوں سے ریاست پاکستان اور عوام کو افسوس ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔‘
سوات میں امن و امان
خیبر پختونخوا کا ضلع سوات گذشتہ کئی ہفتوں سے امن و امان میں خرابی کی وجہ سے خبروں میں ہے جہاں کی عوام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہاں شدت پسندوں کی واپسی ہوگئی ہے اور حکومت سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
گذشتہ روز ہی کبل کے علاقے میں کئی سالوں میں پہلی بار ایک دھماکے میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ ادریس خان سمیت آٹھ افراد جان سے گئی۔ دھماکے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا تھا کہ امن کمیٹی کے سابق سربراہ گذشتہ 13سالوں سے ٹی ٹی پی کو مطلوب تھے۔
منگل کو ہی مٹہ سے ایک بین الاقوامی موبائل کمپنی کے 10 ملازمین کے اغوا کی خبر بھی سامنے آئی۔
چپریال پولیس سٹیشن، جس کے حدود میں یہ واقعہ پیش آیا، کے ایس ایچ او محمد زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نامعلوم افراد نے منگل کو ٹیلی فون کمپنی ٹیلی نار کے ٹاور میں کام کرنے والے 10 ملازمین کو اغوا کر لیا، جس کے بعد پولیس ان میں سے آٹھ کو بازیاب کرنے میں کامیاب رہی۔‘
انہوں نے کہا: ’اغواکاروں کو جب پتہ چلا کہ پولیس ان کے پیچھے ہے تو وہ آٹھ ملازمین کو راستے میں چھوڑ کر فرار ہوگئے جبکہ باقی دو، جو ٹاور میں انجینیئر تھے، وہ اب بھی ان کے قبضے میں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اغواکاروں نے ان کی رہائی کے بدلے 10 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایس ایچ او محمد زیب نے بتایا کہ ان دو انجینیئرز کی بازیابی کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں اور اس سلسلے میں اغواکاروں سے بات چیت بھی کی جا رہی ہے۔
اس سے قبل گذشتہ ماہ خود کو ٹی ٹی پی کے رکن کہنے والوں نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ایک پولیس ڈی ایس پی اور پاکستان فوج کے دو اہلکاروں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
ٹی ٹی پی نے گذشتہ روز ایک اعلامیہ بھی جاری کیا جس میں اس کا دعویٰ تھا کہ اس کے جنگجوؤں نے پولیس افسر سمیت سکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کیا تھا لیکن مقامی جرگے اور حکومت پاکستان کے ساتھ فائربندی کے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے اغوا کی خبروں کے بعد اگست میں سوات کے کچھ علاقوں میں مظاہرے بھی ہوئے تھے اور حکومت سے شدت پسند عںاصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سوات تقریباً 12 سال پہلے بھی شدت پسندی سے شدید متاثر ہوا تھا جب ٹی ٹی پی کا یہاں گڑھ بن گیا تھا۔
2009 میں سکیورٹی فورسز کے فوجی آپریش میں یہاں سے شدت پسندی کا صفایہ کیا گیا تھا تاہم اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے تھے۔
حکومت کا کیا موقف ہے؟
سوات میں امن و امان کی صورت حال پر خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی تفصیلی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف کے سوات سے رکن قومی اسمبلی مراد سعید نے سوات کی تحصیل کبل میں دھماکے کے بعد یوٹیوب پر ایک ویڈیو اپلوڈ کی ہے جس میں انہوں نے امن و امان کی صورت حال پر کچھ سوالات اٹھائے۔
مراد سعید نے ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ انہوں نے کچھ دن پہلے ریاست کو خبردار کیا تھا اور پوچھا تھا کہ کیا افغانستان میں خیبر پختونخوا یا قبائلی اضلاع کے حوالے سے کوئی مذاکرات یا فیصلے ہوئے ہیں۔
تاہم مراد سیعد کے مطابق ان سوالات کا جواب ابھی تک انہیں نہیں دیا گیا ہے۔ ویڈیو میں انہوں نے کہا: ’میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ اگر کوئی مذاکرات ہو رہے ہیں تو کیا اس صوبے کے 80ہزار شدت پسندی سے متاثرہ خاندانوں کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب ابتدائی دنوں میں ہم نے شدت پسندوں کی سرگرمیوں کے خلاف آواز اٹھائی تو ریاست کی جانب سے کہا گیا کہ یہ پروپیگنڈا ہے اور سوات میں حالات بالکل نارمل ہیں۔ ’کوئی پروپیگنڈا نہیں ہو رہا ہے اور میں آج کل یہ عام کہتا ہوں، کوئی غداری کا فتویٰ لگانا چاہتا ہے تو لگائے۔۔۔ ہمارے امن کا ہمیں جواب دیں اور ہماری حب الوطنی پر سوالات اٹھانا چھوڑ دیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عوام نے قربانیاں دے کر امن کو یقینی بنایا ہے اور وہ دوبارہ حالات خراب نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری جانب صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی نے بدھ کو پشاور میں میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ خیبر پختوںخوا حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی مذکرات نہیں کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’وفاقی حکومت افغان حکومت کے ذریعے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے اور اس مذاکراتی عمل میں خیبر پختونخوا حکومت کی کوئی نمائندگی موجود نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے اثرات ہمارے ملک پر بھی پڑے ہیں۔
اس حوالے سے ہم نے بیرسٹر سیف سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ شوکت یوسفزئی نے بالکل درست کہا ہے کیوں کہ یہ مذاکرات صوبائی حکومت کا دائرہ اختیار نہیں ہے بلکہ یہ ریاست پاکستان کی سطح پر ہو رہے ہیں۔
بیرسٹر سیف نے بتایا: ’اگر میری بات کی جائے، تو یہ سچ ہے کہ میں صوبائی حکومت کا مشیر ہوں تاہم مجھے یہ ذمہ داری ریاست پاکستان کی طرف سے دی گئی ہے اور اسی وجہ سے میں مذاکراتی عمل کا حصہ ہوں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے مجھے ایسی کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی ہے۔‘
صوبے میں مختلف واقعات پر عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے بھی شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ ان کی جماعت اس پر ایک عرصے سے آواز اٹھا رہی ہے مگر اسے سنجیدہ نہیں لیا گیا۔
ان کا کہنا تھا: ’وزیر اعلیٰ کے آبائی علاقے مٹہ سے بین الاقوامی کمپنی کے افراد اغوا کیے گئے اور 10 کروڑ مانگے جا رہے ہیں۔ تحصیل کبل میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ ادریس خان کو نشانہ بنایا گیا۔ سوات میں ہم نے امن بحال کیا تھا لیکن اب یہ لوگ پھر سے خوبصورت وادی کو دہشت گردوں کے حوالے کر رہے ہیں۔‘