پاکستان کی خواتین کی فٹ بال ٹیم نے حال ہی میں نیپال میں ہونے والے ساؤتھ ایشین فٹ بال فیڈریشن کے ٹورنامنٹ میں شرکت کی اور تیسرے میچ میں مالدیپ کو سات صفر سے شکست دی۔
اگرچہ اسے بھارت اور بنگلہ دیش کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن پاکستان کی خواتین فٹ بال ٹیم کا آٹھ سال بعد عالمی مقابلے میں شریک ہونا ہی بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔
ٹیم کے لیے مڈفلیڈر کی پوزیشن پر کھیلنے والی خدیجہ کاظمی نے اس ٹورنامنٹ میں اپنا پہلا عالمی گول بھی مالدیپ کے خلاف کیا۔
نیپال سے واپسی پر انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے خدیجہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ اب کھیلنے کے لیے مزید آٹھ سال انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا: ’ٹورنامنٹ میں شرکت کی، ایک میچ جیتا بھی، اس خوشی کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔‘
خدیجہ کاظمی نے بتایا کہ انہوں نے اپنا پہلا عالمی گول ایک پینلٹی کک پر کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ذہن میں کچھ منفی خیالات تھے، ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں ضائع نہ ہوجائے، مگر پھر وہ سب کچھ ایک جادو کا سا سماں تھا، گول کرنا، ایک خواب کی تعبیر تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کہ والدین نیپال میں موجود تھے اور اہل خانہ آن لائن میچ دیکھ رہے تھے۔
خدیجہ کے مطابق انہوں نے سکول میں فٹ بال کھیلنا شروع کیا تھا اور اس وقت صرف دو لڑکیاں تھیں جو لڑکوں کے ساتھ کھیلتی تھیں۔
والدین کے تحفظات کا اظہار کرنے پر انہوں نے تعلیم بھی سنجیدگی سے جاری رکھی اور بزنس ڈگری بھی حاصل کی، مگر فٹ بال نہیں چھوڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ دوسروں کے لیے راستہ بنائیں، اس لیے خود کھیلنا ضروری تھا۔
پاکستان میں فٹ بالرز کے لیے سہولیات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پہلے کچھ خاص سہولتیں نہیں تھی، مگر اس بار حالات مختلف تھے، کیونکہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن نے لڑکیوں کی ادائیگی بھی لڑکوں کے برابر کردی ہے اور کٹس اور جوتے بھی فراہم کیے۔
ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اپنی طاقت اور کمزوری کیا سمجھتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ ٹیم پلیئر ہیں اور کمزوری یہ کہ وہ سوچتی بہت ہیں۔
خدیجہ پاکستان کی پہلی فٹ بالر ہیں جو 2017 میں برطانیہ میں فیفا ماسٹر کورس کے لیے منتخب ہوئی تھیں، اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس کے لیے درخواست آن لائن جمع کروانی ہوتی ہے اور اگر کوئی جانا چاہے تو وہ اس کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم میں ٹیلنٹ ہے، بس تربیت کی ضرورت ہے اور انہیں مواقع ملتے رہنے چاہییں۔
پاکستانی کی خواتین فٹ بال ٹیم کے لباس کے بارے میں چند حلقوں کی جانب سے ہونے والی تنقید پر ان کا کہنا تھا کہ ’معلوم نہیں ہم کیوں اتنا پیچھے پھنسے ہیں۔
’یہ بہت افسوس ناک ہے کہ ہم نے اتنا کچھ کیا مگر سوال اس چیز پر ہو رہا ہے۔۔۔ یہ ہمارے ہی لوگ ہیں، ہم میں سے ہیں، اس لیے یہ کافی حوصلہ شکنی کی بات ہے، مگر ہماری ٹیم کی کچھ لڑکیوں نے کہا کہ اب ہم اور اچھا کرکے دکھاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہمیں ذہن کھولنے ہوں گے، عورتوں کی ہر چیز پر سوال اٹھانا درست نہیں ہے، خود کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔‘