اگر ڈائنوسار بھی اس کے بارے میں سوچتے تو ان کی نسلیں آج ہماری دھرتی پر زندہ ہوتیں۔
پیر کو ناسا ایسا ہی ایک کارنامہ کرنے کی کوشش کرے گا جو انسانیت نے پہلے کبھی انجام نہیں دیا تھا، یعنی جان بوجھ کر ایک خلائی جہاز کو سیارچے سے ٹکرانا تاکہ اس کا مدار تھوڑا سا بدل جائے اور وہ زمین سے ٹکراؤ کے راستے پر نہ رہے۔
امریکی خلائی ادارے کا یہ تجربہ زمین سے اجسام فلکی کو ٹکرانے سے روک کر اسے تباہی سے محفوظ رکھنے اور ہمارے سیارے کے دفاع کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈبل ایسٹرائڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ (ڈی اے آر ٹی) خلائی جہاز گذشتہ نومبر میں کیلی فورنیا سے لانچ کیا گیا تھا اور یہ تیزی سے اپنے ہدف (دو مون لیٹ سیارچوں) کے قریب پہنچ رہا ہے جن پر یہ تقریباً 14 ہزار میل فی گھنٹہ (23 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے حملہ کرے گا۔
تجربے سے پہلے اس بات کی یقین دہائی کی گئی کہ سیارچے، جس کا نام ڈیمورفوس (Dimorphos) ہے، اور نہ ہی اس کا بڑا بھائی جس کا نام ڈیڈیموس (Didymos) ہے، سے زمین کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
سیارچوں کا یہ جوڑا سورج کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا گزرتے ہوئے زمین سے قریب ترین فاصلہ بھی تقریباً 70 لاکھ میل ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ناسا نے یہ تجربہ اس لیے ضروری سمجھا تاکہ حقیقی ضرورت کے لیے ہماری تیاری کا پتہ چل سکے۔
ناسا کے عہدیدار لنڈلی جانسن نے گذشتہ ہفتے ایک بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا: ’یہ نہ صرف ایجنسی کے لیے بلکہ خلائی تاریخ اور انسانیت کی تاریخ میں بھی ایک پرجوش لمحہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوتا ہے تو کار کے سائز کے خلائی جہاز اور 530 فٹ لمبے سیارچے کے درمیان ٹکراؤ امریکہ کے مشرقی وقت کے مطابق شام سات جب کر 14 منٹ پر ہونا چاہیے اور ناسا کی لائیو سٹریم اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔
ڈیمورفوس پر حملے سے ناسا اسے ایک چھوٹے مدار میں دھکیلنے کی امید کرتا ہے جو ڈیڈیموس کو گھیرنے میں لگنے والے وقت سے دس منٹ پہلے ہو گا۔ ان سیارچوں کی پوزیشن میں تبدیلی کا پتہ زمینی دوربینوں سے لگایا جائے گا۔
یہ تجربہ ایک ایسے تصور کو حقیقت بنا دے گا جس کی اس سے پہلے صرف ’آرماگیڈن‘ اور ’ڈونٹ لوک اپ‘ جیسی سائنس فکشن فلموں میں کوشش کی گئی تھی۔
ہمارے نظام شمسی میں موجود اربوں سیارچوں اور فلکی ملبے میں سے بہت کم کو ہمارے سیارے کے لیے ممکنہ طور پر خطرناک سمجھا جاتا ہے اور اگلے سو سالوں میں ٹکراؤ جیسا کوئی امکان نہیں ہے۔
لیکن اس بارے میں انسانوں کو پہلے ہی تیاری کر لینی چاہیے تاکہ اسے حادثے سے بچا جا سکے جس نے ڈائنوسار کی پوری نوع کو معدوم کر دیا تھا۔