100 آر بی ایچ کے گھر موسیقی میں کیریئر بنانے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
ایک روایتی انڈین گھرانے میں پرورش پانے والے اس ریپر کو ان کے والد نے ہدایت کی تھی کہ وہ کوئی ’قابل عزت‘ کام ڈھونڈیں جہاں انہیں یومیہ اجرت ملے۔ لیکن 24 سالہ سوربھ ابھیانکر کے خیالات کچھ اور ہی تھے۔
زیادہ تر موسیقاروں کے لیے عالمی کامیابی کے خواب بہت دور لگتے ہیں۔ مغربی ریاست مہاراشٹرا میں، 100 آر بی ایچ کے دیہی آبائی شہر امراوتی میں، یہ بھی بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ ہپ ہاپ ہوتا کیا ہے۔
انہوں نے اپنے مقامی بامبیا لہجے (ممبئی کی ہندی) میں فون پر دی انڈپینڈنٹ کو بتایا، ’لوگ اس کام کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔‘
انہیں صرف مقامی لوگوں کو اپنے شوز میں آنے پر راضی کرنے کی بہت کوششیں کرنی پڑیں۔ پھر وقت کے ساتھ، ’جب سے پیسہ آنا شروع ہوا، دوسرے [والدین] میری ماں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو بھی موسیقی میں آ جائیں۔‘
100 آر بی ایچ ایک گلی ہیں، جو انڈین سٹریٹ ریپر کی ایک شکل ہے جو روایتی لوک آوازوں کو جدید آلات کے ساتھ ملاتی ہے اور میچ کرسکتی ہے۔
ممبئی سے شروع ہونے والی گلی، ایک تنگ گلی کے لیے ایک ہندی اصطلاح، اس کے بعد سے پورے انڈیا میں پھیل گئی ہے، جو مشہور امریکی ریپ آرٹسٹ نٹوریئس بی آئی جی اور ٹوپاک جیسے بڑے ہپ ہاپ ناموں سے متاثر ہے۔
ان گیتوں میں سیاست، سماجی اصلاحات اور طرز زندگی جیسے مسائل بیان کیے جاتے ہیں، جو کہ الکوحل اور خواتین کے جیسے سطحی موضوعات کے برعکس ہیں جنہیں بالی ووڈ کی موسیقی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
اپنا پہلا سولو ٹریک جاری کرنے سے پہلے، 100 آر بی ایچ انڈیا کے پہلے کثیر لسانی ہپ ہاپ گروپ سودیسی کے ’قابل فخر‘ رکن تھے، جس کا سلوگن ’بامقصد موسیقی‘ ہے۔
اپنے واحد ریپ گانے ’خبردار‘ میں، اس متنازع گروپ نے ’معاشرے کے غلاموں‘ اور بدعنوان رہنماؤں کو مخاطب کیا ہے جو اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں: ’یہ نہ خود کچھ کرتے، نہ اچھا کسی کو کرنے دیتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جو وقت انہوں نے سودیسی میں گزارا وہ حکومتی اصلاحات اور دائیں بازو کی سیاست کے بارے میں بینڈ کے بے باک خیالات کی وجہ سے اب تک کے سب سے زیادہ ’خطرناک‘ کاموں میں سے ایک تھا۔
انہوں نے کہا: ’جب میں نے پہلی بار سودیسی کی موسیقی سنی تو میں بہت متاثر ہوا۔ وہ انہی مسائل کے بارے میں بات کر رہے تھے جن کی مجھے فکر تھی۔ درحقیقت، وہ واحد لوگ تھے جن کے پاس ملک میں مقامی مسائل کے بارے میں بات کرنے کی ہمت تھی۔‘
اپنے سولو کام کے لیے، وہ ممبئی میں پیدا ہونے والے ریپر ڈیوائن سے بہت زیادہ متاثر ہیں، جنہیں انڈیا کے سب سے کامیاب گلی ریپرز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور بالی وڈ کی ہٹ فلم ’گلی بوائے‘ انہی سے متاثر ہوکر بنائی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
100 آر بی ایچ بتاتے ہیں: ’بالکل میری طرح، ڈیوائن بمبئی کی گلیوں سے آیا ہے، میں نے سوچا کہ اگر ان جیسا کوئی شخص زندگی میں کچھ بڑا کر سکتا ہے، تو میں بھی کروں گا۔‘
ڈیوائن کی طرح، وہ بھی ذومعنی الفاظ اور دھنوں سے کھیلتے ہیں۔ 2022 میں اپنے ہٹ گانے ’زنجیر‘، جو انتہائی گہری تال سے بنایا گیا ہے، میں وہ ہندی اور مراٹھی دونوں زبانوں میں سماجی و سیاسی تنقید اور مزاح کا تسلسل پیش کرتے ہیں: ’پرانے دور کے زنجیر کو میں توڑتا ہوں، لاکھ معصوموں کی آواز اکیلا بولتا ہوں۔‘
ٹریک کی ریلیز کے فوراً بعد 100 آر بی ایچ نے اسے آنجہانی انڈین سماجی اصلاح کار بابا صاحب امبیڈکر کو وقف کردیا۔
اب انہوں نے اپنے آئیڈیل ڈیوائن کے لیبل، گلی گینگ انٹرٹینمنٹ کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔
100 آر بی ایچ پر امید ہیں کہ انہیں ایک دن رولنگ لاؤڈ اور لولاپالوزا جیسے بین الاقوامی میوزکل فیسٹیولز میں پرفارم کرنے کے لیے مدعو کیا جائے گا۔ شاید گلیسٹنبری بھی۔
ان کا کہنا تھا: ’میرا خواب ایک لاکھ لوگوں کے سامنے پرفارم کرنا ہے۔‘
اس وقت تک، وہ موسیقی بناتے رہیں گے اور ’ایسے سیاستدانوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں گے جو اپنا کام سنجیدگی سے نہیں کرتے۔‘
وہ مہاراشٹرا کے حالیہ سیلاب، ذات پات کی تفریق اور انڈیا میں انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں جیسے معاملات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔
جہاں تک ان کے خاندان کا تعلق ہے، بالخصوص ان کے والد۔۔۔ وہ اب فخر سے دنیا کو بتاتے ہیں کہ ان کا بیٹا کون ہے اور وہ کیا کرتا ہے۔ 100 آر بی ایچ کے لیے، یہ اپنے آپ میں ایک بڑی جیت ہے۔
© The Independent