اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی بات سے پہلے ذرا پاکستان کے سابق دارالحکومت کراچی میں چیل چوک تک چلتے ہیں۔ دونوں جگہوں اور فورمز میں بلا کی مماثلت پائی جاتی ہے۔
’چیل چوک‘ لیاری کا ایک اہم چوراہا ہے۔ سیاسی وعوامی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی اس کی اپنی افادیت ہے۔ کئی برس پہلے یہ چوک سجایا گیا تو شاید عقاب کا مونومنٹ اس کی شناخت بنانے کی کوشش ہو، مگر جس چوک میں ’عقاب‘ کا مونومنٹ نصب کیا گیا تھا اب یہ ’چیل‘ چوک کہلاتا ہے۔ یہ نہیں کہہ رہا کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کے ساتھ بھی اسی طرح ہاتھ ہوا کیونکہ بات چیل چوک سے شروع کی گئی ہے۔
ایک زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر کراچی کی یہ پرانی بستی لیاری پیپلز پارٹی کے جیالوں کا مرکز تھی۔ بےنظیر بھٹو سمیت پی پی پی کے کئی قائدین کی لیاری سے جیت انہی جیالوں کی وجہ سے ممکن ہوتی رہی۔ یہ جیالے سیاسی اعتبار سے بھی متحرک رہے اور بعض دیگر حوالے سے بھی ان کی سرگرمیاں بہت نمایاں رہی ہیں۔
انہی جیالوں کی بعد ازاں لیاری گینگ کے نام سے شہرت بھی غیر معمولی رہی۔ شاید پی پی پی کے لیے کراچی میں ’مکا چوک‘ کو اپنی شناخت بنانے کی کوشش کرتے کرتے سارے کراچی کو خون میں غلطاں کر دینے والی متحدہ قومی موومنٹ کی مسلح سرگرمیوں کا مقابلہ جیالوں کی نئی شہرت والے کاموں سے ہی ممکن ہو سکتا تھا۔
اس لیے پی پی پی کے جیالوں کی شناخت لیاری گینگ قرار پائی۔ یہ معروف ہے کہ لیاری گینگ اپنے اجلاس اسی ’چیل چوک‘ پر کرتا تھا تاکہ عوامی شرکت کا احساس قائم رکھے۔ لیاری گینگ کے بڑوں اور سرپرستوں کی طرف سے کہا یہ جاتا تھا کہ اس کی سیاسی حکمت عملی اور فیصلے اسی اجلاس میں ’چیل چوک‘ پر خالص عوامی انداز میں ہوتے ہیں۔
گویا چیل چوک نہ ہوا عوامی مشاورتی مرکز ہو گیا۔ آپ اسے لیاری کی ’جنرل اسمبلی‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں ساری اصولی باتیں کی جاتیں، سیاسی تقریریں کی جاتیں اور عوام کو جذباتی کر دینے والے نعرے ہوتے تھے۔ اصل فیصلے جن میں مخالفین کی کارروائیوں کے خلاف جوابی وار اور ’پری ایمپنٹ‘ طرز کی حکمت عملی طے ہوتی، وہ لیاری گینگ کہیں اور بیٹھ کر کرتا۔
یہ اسلوب اب کراچی کے معتبر اور عزت کے حامل اداروں نے بھی اپنا لیا ہے۔ سنا ہے میڈیا سے متعلق ادارے بھی یہی طریقہ واردات اپنا چکے ہیں۔ یوں کراچی کے چیل چوک پر ہونے والی اہل لیاری کی جنرل اسمبلیاں محض دکھاوا اور تقریری مقابلے کی حیثیت رکھنے کی شہرت اختیار کر گئیں۔
حالیہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بعض رہنماؤں کی تقریریں سن سن کر اور اس دوران ہونے والے فیصلوں سے خیال اسی چیل چوک کی طرف جاتا رہا۔
وزیراعظم برطانیہ لز ٹرس کی تقریر اور تازہ فیصلے اس سلسلے کی اہم مثال کہے جا سکتے ہیں۔ جنرل اسمبلی میں ان کی تقریر جمہوری اور اخلاقی اقدار کے نقرئی دعووں کی ٹرے میں سجی ہوئی تھی۔
مگر انہی دنوں لز ٹرس نے اسرائیلی وزیراعظم یائر لیپڈ کو یقین دلایا کہ وہ بھی اسرائیلی آشاؤں کی خاطر اپنے بیان کردہ برطانوی جمہوری اصولوں کی ہی نہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں، بین الاقوامی قوانین اور فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کے راستے پر چلتے ہوئے اسرائیل میں برطانوی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیں گی۔
لز ٹرس نے یہ فیصلہ سنا کر اسرائیل کو خوش کر دیا ہے اور اپنے لیے صہیونی قوتوں کی تائید حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے برطانیہ کی وزیراعظم منتخب ہونے سے پہلے بھی اپنے قدامت پسند اسرائیلی دوستوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ ایسا کریں گی۔
اپنے اس فیصلے کے بعد مشرق وسطیٰ کے لیے بنائے گئے ’ٹرمپ ٹریک‘ کی راہی، صدر جو بائیڈن کی ہمراہی بن گئی ہیں۔ جو بائیڈن نے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ دور کے معاہدہ ابراہم کو گود لے لیا یا ڈیموکریٹس کی سیاست کو ٹرمپ کی سوچ کے حوالے کر دیا تھا، اس بارے آپ کچھ بھی سوچ سکتے ہیں۔
بہر حال اپنے جولائی میں ہونے والے دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران جو بائیڈن نے معاہدہ ابراہم کو بنیاد بناتے ہوئے عجیب الخلقت طرز کی اسرائیلی ریاست کے ساتھ عرب دنیا کے اہم ممالک کے تعلقات کی ’نارملائزیشن‘ کے نام پر مبنی ایجنڈے کو آگے بڑھایا تھا۔
ٹرمپ نے 2017 میں تمام بین الاقوامی اور امریکی اصولوں کو اسرائیلی قربان گاہ پر ’صدقہ‘ کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر دیا تھا۔ اب یہی اعلان برطانوی وزیراعظم لز ٹرس کے حوالے سے بھی سامنے آ گیا ہے۔
خاتون وزیراعظم کی دیدہ دلیری اور سنگدلی اس ناطے غیر معمولی ہے کہ انہوں نے تمام بین الاقوامی قوانین، قراردادوں اور عالمی اختلافات سے آنکھیں چرا کر اپنے سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس کی طرف نکال لے جانے کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے نے مسلمانوں ہی نہیں مسیحیوں کے بھی مذہبی جذبات کچل کر رکھ دیے بلکہ ان فلسطینی بچوں اور ماؤں کی لاشوں کی پروا بھی نہیں کی، جو اسرائیل کے جابرانہ قبضے اور بارودی پالیسی کی اب تک بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ لز ٹرس کا یہ فیصلہ اسرائیلی صیہونی جبر اور قتل وغارت گری کے لیے برطانوی سند تائید فراہم کرتا ہے۔ لز ٹرس نے وہ کام کیا ہے جو اس وقت امریکی و اسرائیلی پالیسیوں کو زیادہ سے زیادہ تقویت دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
بلاشبہ اس سے امریکہ کی معاہدہ ابراہم کے حوالے سے اس کوشش کو عرب دنیا میں مزید حمایت ملنے کا امکان ہو گا، جو امریکہ خالصتاً ایک ابنارمل (عجیب الخلقت) اسرائیلی ریاست کے ساتھ نارمل تعلقات کے لیے عرب دنیا پر سفارتی یلغار کے طور پر شروع کیے ہوئے ہے۔
وزیراعظم برطانیہ کی دیدہ دلیری اس ناطے بھی اہم ہے کہ انہوں نے ایک جانب جنرل اسمبلی کے سامنے اپنی لچھے دار تقریر کر کے جمہوری اصولوں کے ساتھ خود کو اور اپنے ملک کو جوڑنے کی کوشش کی۔
مگر اس ’عالمی چیل چوک‘ سے باہر جاتے ہی فیصلہ ان تمام کتابی، زبانی اور تقریر میں بیان کردہ اصولوں کے برعکس کر دیا کہ ’برطانیہ تل ابیب سے اپنا سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس لے جائے گا۔‘
پچھلے دنوں سعودی عرب کے ’امن منصوبے‘ کی بحالی کے اعلان سے یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ ریاض مشرق وسطیٰ کے اس اہم ترین تنازعے کو عرب دنیا اور مسلم دنیا کی سطح پر طے کرنے کی طرف بڑھے گا۔
لیکن برطانوی وزیراعظم کا اپنے سفارت خانے کے حوالے سے موقف بتاتا ہے کہ سعودی عرب کو اپنا ’انیشی ایٹیو‘ آگے بڑھانے میں امریکہ اور یورپ سے تعاون نہیں ملے گا۔ اس چیلنج سے عرب دنیا کے سفارت کار کس طرح عہدہ برآ ہوتے ہیں، یہ آئندہ دنوں میں صاف نظر آنے لگے گا۔ اگر خدانخواستہ معاملہ برعکس ہوتا ہے تو بھی اندازہ ہو جائے گا۔
اسی جنرل اسمبلی کے موقعے پر اسرائیلی وزیراعظم نے بھی اپنی لچھے دار تقریر میں دو ریاستی حل پر آمادگی کا تاثر دے کر کافی پذیرائی حاصل کی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اپنی ٹویٹ میں اس بات کو سراہا۔ بعض دوسرے عالمی رہنماؤں نے بھی اسرائیل کے اس دعوے کی پذیرائی کی ہے مگر عملی حقیقت سے ہر ایک نے ہی صرفِ نظر کیا ہے۔
اسرائیل نے آج تک فلسطینی تنازعے کے حل کے لیے دو ریاستی امن منصوبے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے برعکس پالیسیاں بنائی ہیں۔ ہمیشہ عالمی اصولوں اور انسانی اخلاقیات کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جس معاہدے پر بھی اسرائیل نے دستخط کیے ہیں، ان پر عمل نہیں کیا۔
نہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کے خلاف صبح شام دہشت گردی کے واقعات، ان کے گھروں کی مسماری، زمینوں پر قبضے، جیلوں میں فلسطینی قیدیوں سے سلوک، غزہ کا 15 سال سے محاصرہ، فلسطینیوں کا معاشی قتل عام، یہ سب اور اس کے علاوہ بہت کچھ مسئلے کے حل کے لیے نہیں کیا جاتا رہا، بلکہ اسرائیل کا ہر اقدام اور اس کے سرپرستوں کی مدد سے ہونے والا ہر معاہدہ فلسطینیوں کے حقوق، ان کی زندگیوں اور آزادی کے خلاف ہی کیا ہے۔
اب بھی یائر لیپڈ کی جس تقریر پر بعض عالمی رہنماؤں نے سر دُھنے ہیں وہ بھی صاف چغلی کھا رہی ہے کہ اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر سے ایک آزاد فلسطینی ریاست قبول نہ کرنے کا ہی اعلان کیا ہے۔ البتہ اسرائیل کو محض ایک ذیلی فلسطینی ڈھانچہ برداشت ہو سکتا ہے، جو اس کے ہر طرح سے تابع ہو اور اس کی قیادت اسرائیلی کے ہاتھ کی چھڑی بن کر رہے، تاکہ خطے میں اسرائیل ایک قوام بن کر پوری عرب دنیا ہی نہیں مسلم دنیا پر بھی حاوی ہوتا چلا جائے گا۔ نارملائزیش کا جاری عمل اور اسرائیلی آشاؤں کے مطابق نام نہاد فلسطینی ریاست زینہ کاری کے لیے کام آئیں گے۔
اسی لیے یائر لیپڈ نے جو کچھ کہا ہے اس کے تناظر میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ دو ریاستی حل میں فلسطینی ریاست کو محض اپنی باجگزار اور فرمانبردار ریاست کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے، جس کا جغرافیہ اسرائیل کی مرضی کے مطابق ہو، جس کی معیشت اسرائیل کے مرہون منت ہو، جس کی سیاست اسرائیلی کی کاسہ لیس ہو، جس کی پالیسیاں اسرائیلی مفادات کے تحت رہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ فلسطینی ریاست اپنی نئی نسل کو بالکل اسی طرح اسرائیل کے حوالے کیے رکھے جس طرٖح بنی اسرائیل کی نئی نسل اور پیدا ہونے والا ہر بچہ ماضی کی فرعونیت کے حوالے ہوتا تھا۔
اس ناطے وہ فلسطینیوں کو براہ راست اور عربوں کو بالواسطہ اسرائیلی فرعونی روایت کے مطابق دیکھنا ہی نہیں، رکھنا بھی چاہتا ہے۔ حماس اور اسلامی جہاد جیسی کسی شناخت کا وجود اس کے لیے قطعاً قابل برداشت نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوال یہ ہے کہ پورے عالم عرب کو اگر عالمی طاقتیں نارملائزیشن کے نام پر اسرائیلی جیب کی گھڑی بنانے پر تلی ہوئی ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل مجوزہ فلسطینی ریاست کو ایک جیتی جاگتی اور زندہ سلامت ریاست کے طور پر قبول کر لے؟
اسرائیل کو اپنی ناک کے نیچے اور آنکھوں کے سامنے بھی مکمل طور پر ایک ایسا منظر چاہیے جو ’نارملائز‘ ہو کر عرب دنیا سے کسی صورت مختلف نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کمزور، لاغر اور لاچار فلسطینیوں کی عکاسی کرتا ہو۔
ان حالات میں یہ سوال بھی غیر متعلق نہیں ہو گا کہ ان سیاسی، سفارتی، معاشی، علاقائی اور عسکری کامیابیوں کے بعد والا اسرائیل ایک راضی برضا اور قانع ریاست بن کر بیٹھا رہے گا جبکہ اس کے ارد گرد تیل کی دولت کے دریا بہہ رہے ہوں، وسیع خطہ اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار ایک چراہ گاہ کے طور پر موجود ہو۔
جب نائن الیون کے بعد صلیبی جنگوں کی بازگشت امریکہ جیسے ملک میں سنی جاتی رہی ہے تو اسرائیلی ریاست کو تاریخ کی کوئی پرانی کسک کیوں تنگ نہیں کرے گی۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب کسی نورالدین زنگی کے نہ ہونے کا بھی اب کامل یقین ہے۔
1967 کی عرب اسرائیل جنگ سے لے کر اب تک کے حالات گواہ ہیں کہ اسرائیل نے عرب ملکوں اور مسلم دنیا کو کبھی اپنی سازشوں اور خواہشوں کے ہدف سے دور نہیں ہونے دیا۔
وہ فلسطینیوں سے لے کر اڑوس پڑوس کے ممالک حتیٰ کہ پاکستان کو بھی بھارت کی مدد کے کھاتے میں ہی سہی نشانہ بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ شام پر بمباری تو آئے روز کا معمول بن چکا ہے۔ ایران اس کا بظاہر کھلا ہدف ہے۔
کیا اسرائیل خطے میں امن کی ضمانت کے طور پر ایک ریاست بن کے ابھر سکتا ہے، ایں خیال است و محال است وجنوں۔ برطانوی وزیراعظم کا اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان اسی تناظر میں اسرائیلی ہلہ شیری سے کم نہیں ہے۔
لزٹرس کا اپنی تقریر میں اس بات کا ذکر نہ کرنا خود اس امر کی دلیل ہے کہ برطانیہ اس معاملے میں انسانیت کے ساتھ دو نمبری کر رہا ہے تاکہ خطے میں اسرائیلی دس نمبری جاری رہ سکے۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔