عالمی ادارے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے افریقی ملک ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں ایبولا کی وبا پھیلنے کے بعد اسے ’عالمی سطح پر تشویشناک‘ قرار دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
بدھ کو ماہرین کے ایک گروپ نے کانگو کے سب سے بڑے مشرقی شہر میں ایبولا کے وبائی شکل اختیار کرنے کے بعد کی صورتحال جانچنے کے لیے ملاقات کی۔ ملاقات میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ کیا اس موقعے پر ایبولا کی وبا کو عالمی ایمرجنسی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل یہ کمیٹی تین بار یہ اعلان کرنے کا فیصلہ مسترد کر چکی ہے۔ تاہم بدھ کو کیے جانے والے اعلان کے بعد مزید عالمی حمایت اور توجہ ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
رواں ہفتے بس کے ذریعے گوما شہر آنے والے ایک پادری میں ایبولا کی تشخیص کی گئی تھی۔ بیس لاکھ آبادی اور بین الاقوامی ہوائی اڈا رکھنے والا شہر گوما روانڈا کی سرحد کے قریب شمال مشرقی علاقے میں اہم شہر شمار کیا جاتا ہے۔
گانگو کے حکام کے مطابق پادری نے شہر میں داخلے کے لیے اپنی اصل شناخت چھپا کر کئی جعلی نام استعمال کیے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ منگل کو ان کا انتقال ہو چکا ہے لیکن محکمہ صحت کے ملازمین ان کے جاننے والوں اور بس میں ساتھ سفر کرنے والے درجنوں افراد کی معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبریوسیس نے کانگو میں ایبولا کے پھیلاو کو ایک ’انتہائی مشکل صورتحال‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’اب وقت آگیا ہے کہ دنیا اس بارے میں سنجیدگی سے سوچے اور اس معاملے سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کرے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’ہم سب کو کانگو کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ اس وبا پر قابو پانے کے لیے صحت کا ایک موثر نظام قائم کیا جائے۔ مشکل ترین حالات میں بھی ایک سال سے زبردست کام کیا جا رہا ہے۔ ہم اس سلسلے میں کام کرنے والوں کے شکرگزار ہیں۔ یہ صرف ڈبلیو ایچ او نہیں، حکومت، شہریوں اور تمام برادریوں کی مشترکہ زمہ داری ہے۔‘
لیکن کانگو کے وزیر صحت ڈاکٹر اولی الونگا کے مطابق اس صورتحال کو ’انسانی بحران‘ نہیں قراد دیا جا سکتا۔
موسا سنگارہ ورلڈ ویژن کے کانگو کے لیے ایبولا ریسپانس ڈائریکٹر ہیں۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم ڈبلیو ایچ او کے اعلان کا خیر مقدم کرتی ہے۔ ان کے مطابق یہ اعلان ایک اہم وقت پر کیا گیا ہے جب ایبولا کی وبا بحرانی شکل اختیار کر رہی ہے۔ یہ اعلان ضروری فنڈنگ جمع کرنے میں مددگار ثابت ہو گا جو دو جنگوں کے دوران ہیلتھ ورکرز اور جان بچانے والی ادویات پہنچانے کے کام آئے گی۔ ان کا اشارہ ایبولا کے خلاف جاری جنگ اور شمال مشرقی کانگو میں جاری مسلح تصادم کی جانب تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’ایبولا ایک خطرناک اور خوفناک بیماری ہے۔ یہ پہلے ہی ہزاروں جانیں لے چکی ہے جس میں سینکڑوں بچے بھی شامل ہیں۔ ایبولا سے متاثر ہونے والے افراد میں تیس فیصد بچے ہیں۔‘
جینوا میں تعینات امریکی سفارت کار کا کہنا ہے کہ اگلے کچھ ماہ میں امریکہ مزید امداد فراہم کرے گا تاکہ ایبولا سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پایا جا سکے۔ جبکہ یورپی یونین کے نمائندے کے مطابق یورپی یونین اس معاملے میں اپنی امدادی کارروائیوں میں اضافے کا جائزہ لے رہی ہے۔
امریکی ناظم الامور مارک کیسرے نے اقوام متحدہ کی ایبولا پر منعقدہ کانفرنس کو بتایا کہ امریکہ نے ارکان ممالک سے اس سلسلے میں کوششوں میں اضافے کی درخواست کی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پہلے سے جاری کوششیں فنڈز کی کمی کا شکار ہیں۔ کانگو میں ایبولا کی وبا میں لگ بھگ 17 سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ میں اے پی کی معاونت شامل ہے۔
© The Independent