ذاتی یادداشت اور سماجی عدم مساوات پر کتابیں لکھنے والی فرانسیسی مصنفہ اینی ایرنو نے جمعرات کو ادب کا نوبیل انعام جیت لیا ہے۔
سویڈش اکیڈمی نے انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 82 سالہ اینی مسلسل اور مختلف زاویوں سے ایک ایسی زندگی کا جائزہ لیتی رہی رہیں جس میں صنف، زبان اور طبقات کے حوالے سے عدم مساوات موجود ہے۔
سال 2022 کا ادب کا انعام جیتنے والی اینی فرانس کی جانب سے یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں جن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ انعام ایک ’ذمہ داری‘ ہے۔
اینی نے سویڈن کے نشریاتی ادارے ایس وی ٹی کو بتایا: ’یہ انعام جیت کر میں بہت حیران ہوں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا مجھے یہ بطور مصنفہ میرے منظر نامے پر دیا جائے گا۔ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔‘
وہ پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ لکھنا ایک سیاسی عمل ہے جو سماجی عدم مساوات پر ہماری آنکھیں کھولتا ہے۔
اکیڈمی نے مزید کہا: ’اس مقصد کے لیے وہ زبان کو ایک ’چاقو‘ کے طور پر استعمال کرتی ہیں جیسا کہ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی زبان سے تخیل کے پردے پھاڑ دیتی ہیں۔‘
اینی کا پہلا ناول Les Armoires Vides کی اشاعت1974 میں ہوئی تھی لیکن انہیں 2008 میں اپنی کتاب Les Années کی اشاعت کے بعد بین الاقوامی سطح پر پہچان ملی۔ اس کتاب کا 2017 میں ’دی ایئرز‘ کے عنوان سے انگریزی میں ترجمہ ہوا۔
اکیڈمی نے اس کتاب کے بارے میں کہا: ’یہ کتاب اینی کا سب سے زیادہ پرجوش کام ہے جس سے انہیں بین الاقوامی شہرت، فالوورز اور دنیا بھر سے ادبی شاگرد ملے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شمالی فرانس کے قصبے نارمندی کے ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہونے والی اینی ایرنو نے سماجی طبقات کے بارے میں واضح، براہ راست انداز میں لکھا۔
انہوں نے اپنی کتابوں میں بتایا کہ کس طرح انہوں نے اپنے محنت کش طبقے کے پس منظر میں فرانسیسی طبقاتی ںظام کے ضابطوں اور عادات کو اپنانے کے لیے جدوجہد کی۔
سویڈش اکیڈمی کے رکن اینڈرس اولسن نے روئٹرز کو بتایا کہ ’یہ ایک طویل راستہ ہے جو وہ اپنی زندگی میں طے کرتی ہیں۔ وہ ایک بہادر خاتون ہیں۔‘
اینی کے 2000 کے ناول ’ہیپننگ‘ ان کے اسقاط حمل کے تجربات کے بارے میں ہے جب یہ 1960 کی دہائی میں فرانس میں غیر قانونی تھا۔ اس ناول نے 2021 میں وینس فلم فیسٹیول کا ’گولڈن لائن‘ ایوارڈ جیتا تھا۔
پبلشر ڈین سائمنز نے ایک بیان میں کہا کہ سویڈش اکیڈمی نے ایک ایسی خاتون کی بہادری کا اعتراف کیا ہے جو اپنی جنسی زندگی، خواتین کے حقوق اور ایک خاتون کے طور پر اپنے تجربے اور حساسیت کے بارے میں بلا جھجک لکھتی ہیں۔
فرانس کی سابق وزیر ثقافت روزلین بیچلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’اینی ایک ایسی مصنفہ ہیں جنہوں نے سوانح عمری کے انداز کو تجزیاتی انداز لکھا۔ ہو سکتا ہے کوئی ان کے سیاسی خیالات سے اتفاق نہ کرے لیکن ان کے طاقتور اور متحرک کام کو سراہا جانا چاہیے۔‘
اس سال ادب کے نوبیل انعام کے امیدواروں کی فہرست میں فرانسیسی مصنف مائیکل ہولی بیک بھی شامل تھے جنہوں نے 1998 میں اپنے ناول ’ایٹمائزڈ‘ سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی۔
ان کےعلاوہ کینیا کے نگوگی وا تھیونگو، کینیڈا کی شاعرہ این کارسن اور انڈیا میں پیدا ہونے والے سلمان رشدی بھی اس دوڑ میں شریک تھے۔
’توہین مذہب‘ کے مرتکب رشدی کو اگست میں ریاست نیو یارک میں اس وقت چاقو کے وار سے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی جب وہ ایک لیکچر دینے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ اس حملے میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔ گذشتہ سال ادب کا نوبیل انعام تنزانیہ کے ناول نگار عبدالرزاق غرناہ نے جیتا تھا۔
10 دسمبر 1896 کو انتقال کرنے والے سویڈن سے تعلق رکھنے والے ڈائنامائٹ کے موجد اور تاجر الفریڈ نوبیل نے اپنی آخری وصیت میں اس انعام کے اجرا کا اعلان کیا تھا۔