میرا ایک ماموں تھے، عبدالعلیم۔ فوج میں تھے، بنگال میں قیدی بھی ہوئے۔ جہاز سے چھلانگ لگاتے ہوئے ایک پورا دن پیرا شوٹ سمیت درخت پہ بھی اٹکے رہے اور ٹانگ میں گولی بھی کھائی۔ اِس سبب ٹانگ میں لنگ بھی پیدا ہو گیا۔
بنگال سے چھوٹ کر آئے تو پورے خاندان پر فوجی دھاک بٹھانا شروع کر دی۔ نماز اور روزے کے پابند تھے۔ بچوں کو صبح کی نماز پڑھانے کے لیے اٹھانے کا طریقہ یہ تھا کہ سرہانے پر کھڑے ہو کر سوتے کے سر میں جوتے مارنے شروع کر دیتے۔ بیگم (جو بدقسمتی سے میری سگی پھوپھی بھی تھیں) کو ذری ذری سی بات میں باکسنگ پہ رکھ لیتے۔ اُنھیں ہر روز نیا دانت لگوانا پڑتا۔
چھوٹے بچوں سے محبت کا عجیب طریقہ یہ تھا کہ جس پر پیار آتا اُس کے منہ کے قریب سے مکہ لہرا کر ڈراتے۔ اِسی پیار میں ایک بار ایک بچہ شدید ڈر گیا اور اپنے منہ کو بد قسمتی سے اُسی طرف پھیر بیٹھا جس طرف یہ حضرت اپنا مکہ خالی لے جانا چاہتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مکا سیدھا اُس کے جبڑے پر لگا۔ اُس کا ایک دانت پھٹاک سے باہر نکل آیا اور خون بھی جاری ہو گیا۔ بچہ دس دن ہسپتال میں رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک دفعہ جب میرے والد کویت میں تھے اور میری عمر بمشکل پانچ سال تھی، میری والدہ ہم بہن بھائیوں کو بہالپور چھاؤنی میں اُن کے پاس لے گئی۔ وہاں عجب تماشے دیکھنے کو ملے۔ صاحب نے پورا فوجی نظام گھر میں قائم کیا ہوا تھا۔
بچوں کو فوجی پریڈ سے لے کر فرضی توپ اور گولہ بارود چلانے کی مشق اور افسری کے گُر سکھائے جاتے۔ ہر کردار جو وہ رنگروٹوں یا سپاہیوں پر آزماتے تھے گھر میں اُس کی مشق ہوبہو کراتے تھے، غلطی پر پٹھو لگاتے اور یہ سزا ضروری نہیں کہ گھر کے مردوں پر ہی جاری ہوتی تھی، عورتیں بھی اِس کی زد میں آتی تھیں۔
روز کسی نہ کسی وجہ سے سب گھر والے ’ہولڈ‘ کرا دیے جاتے۔ ہولڈ کا مطلب سارے گھر کا لائن باندھ کر ہاتھ اوپر کر کے کھڑے ہونا تھا۔ اُس کے بعد اپنی بید لے کر تفتیش شروع کر دیتے اور مجرم کو شناخت کر کے کورٹ مارشل کرتے۔ کورٹ مارشل کی سزا سارا دن بھوک اور چھ میل پیدل چلنے کی تھی اور اِس میں کسی مرد، عورت، بوڑھے، بچے کی تخصیص نہیں تھی۔ جب تک مجرم ثابت نہ ہوتا سارا گھر ہولڈنگ پہ رہتا۔
یہ کورٹ مارشل قریباً روز ہوتا تھا یعنی دروازے کی چٹخنی ٹوٹی تو کورٹ مارشل، سالن ٹھیک نہیں پکا تو کورٹ مارشل۔ واش روم صاف نہیں تو کورٹ مارشل۔ کسی پہ زیادہ پیار آیا تو کورٹ مارشل۔ نوکر چونکہ روز روز کورٹ مارشل کی تاب نہ لا سکتے تھے لہٰذا بھاگ جاتے مگر گھر والے کہاں جاتے۔
مجھے اپنے کورٹ مارشل کی فکر رہتی اور روز امی سے ضد کرتا کہ یہاں سے نکلیں۔
ایک دن صاحب ڈیوٹی پر نکلے تھے، مجھ سے اچار کا مرتبان گر کر ٹوٹ گیا، پورے گھر میں سناٹا چھا گیا، میری آنکھوں میں کورٹ مارشل تیرنے لگا۔ والدہ نے میرے ماموں زاد سے کہا، ’بھئی ہمیں ابھی بس اڈے پر چھوڑ کر آؤ۔‘
ماموں زاد نے امی سے کہا، ’پھوپھی جان، آپ اپنے بیٹے کو لے جائیں گی تو اِس کے بدلے میرا کورٹ مارشل ہو جائے گا کیونکہ کورٹ مارشل تو ہر حالت میں ہونا ہی ہے۔‘
والدہ نے کہا، ’کچھ بھی ہو جائے مَیں تو اپنے معصوم بچے کا کورٹ مارشل نہ ہونے دوں گی۔ جلد ہمیں اڈے چھوڑ کر آ۔‘
ماموں زاد نے کہا، ’پھوپھی جان اِس شرط پر چھوڑ کر آتا ہوں کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاؤ اور چھ مہینے وآپس نہ آنے دو۔‘
امی نے اُسے بھی اپنے ساتھ لیا۔ پھر ہم ماموں صاحب کے گھر آنے سے پہلے بس پر بیٹھ کے اوکاڑہ کے لیے نکل پڑے اور میں کورٹ مارشل سے بچ گیا۔
سُنا ہے ایک عرصہ تک ماموں تلملاتے رہے کہ کورٹ مارشل کیسے کروں؟ ہم جو دو مہینے کے لیے رہنے گئے تھے، کورٹ مارشل کے ڈر سے دو ہفتوں میں واپس آ گئے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
آج سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے، ہماری تو پوری قوم ستر سال سے ہولڈنگ اور کورٹ مارشلوں میں جی رہی ہے اور ہماری طرح اس کے پاس یہ سہولت نہیں کہ کہیں بھاگ کر جان چھڑا لے۔