اُن دِنوں بیاس کا دریا ہمارے گاؤں سے ٹکر کھا کے نکلتا تھا۔ پاٹ میں پانی بہت تھا۔ ہمارے لیے اِس کا واحد مصرف بھینسیں نہلانا اور خود نہانا تھا۔
تب مَیں بارہ تیرہ سال کا ہوں گا۔ دوپہر ڈھلے سات، آٹھ چچا زاد اورکچھ ہم عمر محلے کے لونڈے اپنی بھینسیں لے کر دریا پر آ پڑتے۔ قمیضیں گھر پر چھوڑ جاتے۔ شلواریں دریا کنارے اُتار پھینکتے کہ کون اِن دَھجیوں کا بار لیے لیے پھرے۔
اُن دِنوں پانی میں ننگا نہانے میں جو لطف تھا وہ کچھوں اور نیکروں میں نہیں تھا۔ یوں لچکتے ہوئے موجوں میں اُترتے جیسے مچھلیاں تِلکتی جائیں۔ دُور تک نیچے ہی نیچے ڈبکیاں لگاتے، کبھی اُلٹے، کبھی سیدھے تیرتے۔ بھینسیں ایک طرف مَست ہوکے اِدھر اُدھر پھیل جاتیں اور ہم لڑکے بالے پورے دریا میں ننگ دھڑگ غوطہ زنیاں کرتے۔
تب ننگے پن کا احساس ذرا نہ تھا، نہ شعورِ گناہ و ثواب تھا، اِس کی خاص وجہ شاید یہ تھی کہ اُس وقت نیٹ شیٹ نہیں تھا۔ کم از کم دو گھنٹے پانی کی موجوں میں لہرانے اور تیرنے کے بعد عصر کے قریب بھینسیں نکالتے، شلواریں پہنتے اور گھر لوٹ آتے۔
اب ایک دلچسپ قصہ سنیے۔ ایک دن ہم کوئی دس بارہ لونڈے حسبِ معمول شلواریں پانی سے دُور پھینک کر دریا میں داخل ہوئے اور نہاتے رہے۔ جب کافی دیر ہو گئی تو باہر نکلنے کا سوچا مگر ہوا یہ کہ ہمارے گاؤں کے دو شیطان لڑکے اُسی لمحے بھاگے آئے، سب کی شلواریں اُٹھائیں اور یہ جا وہ جا، منٹوں میں رفو چکر ہو گئے۔
ہم آوازیں لگاتے اور منتیں ہی کرتے رہ گئے مگر اُنھوں نے ایک نہ سُنی۔ ہم انتظار میں ہیں کہ اب آتے ہیں، اب آتے ہیں مگر اُنھیں نہ آنا تھا نہ آئے۔ حتیٰ کہ پانی میں تین گھنٹے سے اوپر ہو لیے۔ بھینسیں نہا نہو کر خود ہی گھروں کو روانہ ہو گئیں۔ اگر اُن کی شلواریں ہوتیں تو شاید ہمارے ساتھ رہتیں۔
ادھر ہم وہیں کے وہیں تھے۔ اب سب کو پریشانی اور بےچینی کہ کب تک پانی میں بیٹھے رہیں گے۔ گھر ہمارے پورا گاؤں عبور کرنے کے بعد آتے تھے۔ نزدیک ہوتے تو دوڑیں لگا کر چلے جاتے۔
عمریں سب کی 10 سے 14 سال کے درمیان۔ اُدھر وہ شیطان کے مامے کی طرح غائب ہوئے کہ پھر اُن کا کان بھی دکھائی نہ دیا جو ہماری آواز سُنتا۔ اُس وقت کاغذی پیرہن کا رواج نہیں تھا، نہ غالب کا شعر کسی نے پڑھا تھا۔ آخر پانی میں بیٹھے بیٹھے ہمتیں جواب دے گئیں تو سب ننگوں نے سر جوڑے، مختلف صلاحیں ہوئیں، دریا کے بیچ پارلیمنٹ اور سینیٹ کا اجلاس ہوا۔
ارکانِ برہنہ نے قراردادیں اور ریزولوشنیں پیش کیں، پھر جیسا کہ اکثر دانشور کرتے ہیں، بڑی سوچ بچار کے بعد ایک قانون پاس ہوا، جس پر فوری عمل کا فیصلہ ہوا کہ اِسی طرح ننگی پلٹن باہر نکلے اور پریڈ کرتی ہوئی کپڑے اُٹھانے والوں کے گھر تک مارچ کرے، گھر میں داخل ہو کر زنجیرِعدل ہلائے اور دادِ عدل کے ساتھ شلواریں پائے۔
لیجیے جناب، دس بارہ ننگے لونڈوں کا جلوس ہر طرح کی خارجی آلودگی اور پردے سے مبرا، الف ہو کر پانی سے نکلا اور قطار اندر قطار چلا گاؤں کی طرف۔ اب جو کوئی رستے میں ملتا اپنی اپنی بساط میں دادِ ننگ دیتا۔
کسی کے لیے ہم غلمانِ بہشت تھے اور کسی کی نگاہ میں سبزہ رُخ تُرک امرد۔ ایک بزرگِ باریش توبہ توبہ کرتے، کانوں پہ ہاتھ رکھے، ہمیں شیطان کے چیلے کہہ کے جلدی سے بھاگ نکلے۔ کوئی ناری آنکھوں کو ڈھانک رہی تھی تو کوئی دیدۂ عبرت سے تاک رہی تھی۔
ایک جگہ گاؤں کی چھوکریاں ایک نَل سے پانی بھرنے کھڑی تھیں، دیکھ کر ایسے اِدھر اُدھر بھاگنے لگیں جیسے ہم نہیں، وہ ننگی ہوں۔ بعض گالیاں دینے لگیں مگر ہم تھے کہ ہر طرف سے کان بند کیے مسلسل چلتے گئے۔
ایک دو آدمی پاس سے گزرے اور شرارتاً ایک ایک چپت ہماری پشتوں پر جما کر آگے نکل گئے۔ گھر اُن لڑکوں کا، جہاں ہماری منزل تھی، گاؤں کےعین بیچ تھا، وقت عصر اور مغرب کا تھا۔ گاؤں کے اکثر لوگوں نے اندازہ لگایا کہ اتنے لڑکوں کا ایک دم پاگل ہو جانا سمجھ نہیں آتا، ضرور کسی نے سب کو بھنگ پلا دی ہے یا جادو اور پریوں کا سایہ ہو گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتنے میں ہمارا ایک بازی گر دوست اچھو سامنے سے آتا دکھائی دیا، حیران ہو کر پاس آیا اور پوچھا معاملہ کیا ہے؟ ہم نے مختصر قصہ کہا تو وہ فوراً دوڑ کر اپنے گھر سے ڈھول لے آیا اور دھما دھم بجانا شروع کر دیا۔ لیجیے اب تو ننگوں کی بارات بن گئی۔ ڈھول بجتا جاتا تھا اور ہم چلتے جاتے تھے۔ آخر اُن کے گھر کے سامنے پہنچ گئے اور دروازے پر دستک دی۔
لوگوں کا مجمع گرد ہونے لگا۔ اتنے میں دیکھا تو وہ دونوں فتنے ہماری شلواروں سمیت دوڑے آ رہے تھے۔ تب لوگ سمجھے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ پاس آ کر اُنھوں نے شلواریں ہمارے سامنے پھینکیں اور کہا، خدا کا واسطہ ہے یہ پہن لو اور جاؤ، مگر اب ہم کہاں رُکنے والے تھے۔
اتنے میں یہ شور شرابا اور دستکیں سُن کر گھر والوں نے دروازہ کھول دیا اور ہم درانہ گھس گئے۔ وہ ایک کو پکڑ کر پیچھے کرتے تھے تو دوسرا آگے بڑھ جاتا تھا۔ عجب تماشا ہو گیا، بچاری عورتیں گالیاں دیتی ہوئی شرم کے مارے کمروں میں داخل ہو گئیں اور اندر سے کنڈیاں چڑھا لیں۔
اُدھر اُن کے گھر کا صحن جلوہ گاہِ پری وش بن گیا۔ ہم ناچتے پھرتے تھے اور صحن میں گھومتے پھرتے تھے۔ اچھو ڈھول بجائے جاتا تھا۔ وہ منتیں کیے جاتے تھے، بھائی خدا رسول کے واسطے کپڑے پہن لو مگر ہم سُنتے نہ تھے۔
آخر کچھ اور لوگ اندر آئے۔ایک آدمی نے اچھو کے کان پر یہ ایک جما کر دی کہ وہ دو قلابازیاں کھا گیا۔ ایک شخص نے آگے ہو کر ڈھول کو فٹ بال کی طرح یوں ٹھوکر ماری کہ وہ دوسری طرف لڑھکتا چلا گیا۔ اب ڈھول موقوف ہوا اور لوگوں نے ہمیں پکڑا اور زبردستی ہماری شلواریں چڑھا کر باہر نکالا۔ اچھو کو اپنا ڈھول پکڑنے کی نوبت نہ ملی۔ اُسے گردن سے پکڑ کر باہر نکال دیا اور گھر کو کنڈی چڑھا دی پھر وہ نہ کھلی، ڈھول وہیں رہ گیا اور آج تک نہیں ملا۔
پچھلے دنوں میں گاؤں گیا تو اچھو ملا، اِس واقعے کو یاد کیا، کہنے لگا، ’دیکھ لو بھئی تمھاری شلواریں مل گئیں مگر میرا ڈھول نہیں ملا!‘
میں نے کہا، ’بھئی اب تو اُسے بھول جاؤ اور یہ دو ہزار عیدی کے رکھ لے،‘ یعنی کاشف منظور نے جو عیدی مجھے دی تھی، اُس کا چوتھائی میں نے اچھو کو دے دیا۔
بھئی کیسا زمانہ تھا، میر صاحب بھی کیا فرما گئے ہیں:
مشکل ہے مٹ گئے ہوئے نقشوں کی پھر نمود
جو صورتیں بگڑ گئیں اُن کا نہ کر خیال