بیلاروس میں قید سماجی کارکن، یوکرین اور روس کے انسانی حقوق کے گروپس نے رواں سال امن کا نوبیل انعام جیت لیا۔
اس ایوارڈ کے ذریعے روسی صدر ولادی میر پوتن کی ’سخت سرزنش‘ کی گئی ہے جن کی ’آمرانہ حکمرانی‘ اور یوکرین پر حملے نے عالمی برادری کو مشتعل کیا ہوا ہے۔
ناروے کی نوبیل کمیٹی نے 2022 کا امن انعام بیلاروس کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایلس بیاٹسکی، روس کے انسانی حقوق کے گروپ ’میموریل‘ اور یوکرین کی تنظیم ’سینٹر فار سول لبرٹیز‘ کو مشترکہ طور پر دیا۔
ناروے کی نوبیل کمیٹی کی سربراہ بیرٹ ریس اینڈرسن نے کہا کہ پینل نے انعام کے لیے ’انسانی حقوق، جمہوریت اور پرامن بقائے باہمی کے تین شاندار چیمپئنز‘ کا انتخاب کیا ہے۔
اوسلو سے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’انسانی اقدار، عسکریت پسندی کی مخالفت اور قانون کے اصولوں کے حق میں اپنی مسلسل کوششوں کے ذریعے اس سال کے انعام یافتہ ارکان نے اقوام کے درمیان امن اور بھائی چارے کے لیے الفریڈ نوبیل کے وژن کو زندہ کیا اور اس کا احترام کیا ہے جس کی آج دنیا میں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نوبیل کمیٹی جان بوجھ کر جمعے کو اپنی 70ویں سالگرہ منانے والے روسی صدر پوتن کو نشانہ بنا رہی ہے؟ ریس اینڈرسن نے جواب دیا کہ ’ہم ہمیشہ کسی اہم کارنامے کے لیے انعام دیتے ہیں نہ کہ کسی کی مخالفت میں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ انعام صدر پوتن کے حوالے سے نہیں دیا گیا، نہ ہی ان کی سالگرہ کے دن کے موقع پر اور نہ ہی کسی اور معنی میں۔ سوائے اس کے کہ کچھ حکومتیں، جیسا کہ بیلاروس کی حکومت، ایک آمریت کی نمائندگی کر رہی ہے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو دبا رہی ہے۔
ایلس بیالیٹسکی 1980 کی دہائی میں بیلاروس میں جمہوریت کی تحریک کے رہنماؤں میں سے ایک تھے اور انہوں نے آمرانہ ملک میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے مہم جاری رکھی۔
انہوں نے غیر سرکاری تنظیم ’ہیومن رائٹس سینٹر ویاسنا‘ کی بنیاد بھی رکھی تھی۔
انہیں 2020 میں پوتن کے قریبی اتحادی بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کے دوبارہ انتخاب کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ تاحال بغیر مقدمہ چلائے جیل میں قید ہیں۔
ریس اینڈرسن نے کہا: ’انتہائی اور بے پناہ مشکلات کے باوجود ایلس بیالیٹسکی بیلاروس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے اپنی لڑائی میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔‘
ریس اینڈرسن نے مزید کہا کہ نوبیل پینل بیلاروسی حکام سے انہیں رہا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
بیلاروس کی جلاوطن اپوزیشن رہنما سویٹلانا تسخانوسکایا نے پیرس میں دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ یہ ایوارڈ بیلاروس میں سیاسی قیدیوں کے مسٔلے کو دنیا میں مزید اجاگر کرے گا۔
ان کے بقول: ’یہ ایوارڈ یقینی طور پر ہمارے ملک کو درپیش انسانی حقوق کی ابتر صورت حال پر زیادہ توجہ مبذول کرانے میں مدد فراہم کرے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سویٹلانا تسخانوسکایا، جن کے شوہر بھی قید میں ہیں، نے مزید کہا کہ ’ایلس بیالیٹسکی بیلاروس کی جیل کے سیلز میں بہت زیادہ تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ہزاروں دوسرے لوگ ہیں جو اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے حراست میں ہیں اور مجھے امید ہے کہ اس سے ہمارے ملک کے بارے میں بیداری پیدا ہو گی اور ان لوگوں کی رہائی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے جنہوں نے اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دیں۔‘
روسی انسانی حقوق کی تنظیم ’میموریل‘ کی بنیاد سوویت یونین میں 1987 میں رکھی گئی تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کمیونسٹ دور کے جبر کے متاثرین کو یاد رکھا جائے۔
تنظیم نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں معلومات مرتب کرنا اور روس میں سیاسی قیدیوں کا سراغ لگانا جاری رکھا ہے۔
روس کی اعلیٰ ترین عدالت نے دسمبر میں اس تنظیم کو بند کرنے کا حکم دیا تھا جو روس میں انسانی حقوق کے کارکنوں، آزاد میڈیا اور اپوزیشن کے حامیوں کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن کا تازہ ترین واقعہ ہے۔
میموریل ہیومن رائٹس ڈیفنس سنٹر کی بورڈ ممبر تاتیانا گلشکوا نے کہا کہ انہیں ایوارڈ کے بارے میں خبروں سے معلوم ہوا۔
ان کے بقول: ’یہ ایک خوشگوار جھٹکا تھا۔ ہم بہت زیادہ خوش ہیں۔‘
گلشکوا نے کہا کہ ’ہمارے لیے یہ ایوارڈ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے کام کو، چاہے اسے روسی حکام نے تسلیم کیا ہو یا نہیں، یہ دنیا اور روس کے لوگوں کے لیے اہم ہے۔‘
دوسری جانب یوکرین میں ہنگامہ آرائی کے دوران سنٹر فار سول لبرٹیز کی بنیاد 2007 میں انسانی حقوق اور جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے رکھی گئی تھی۔
فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد اس گروپ نے یوکرین کے شہریوں کے خلاف روسی جنگی جرائم کو دستاویز کرنے کے لیے بھی کام کیا ہے۔
ریس اینڈرسن نے کہا کہ ’یہ گروپہ ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے تاکہ قصورواروں کو ان کے جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔‘
یوکرینی گروپ کے ایک نمائندے وولودی میر یایورسکی نے کہا کہ یہ ایوارڈ تنظیم کے لیے اہم ہے کیونکہ ’ہم نے کئی سالوں تک ایک ایسے ملک میں کام کیا جو عالمی منظر نامے سے غائب تھا۔‘
انہوں نے اے پی کو بتایا کہ ’یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے اور یہ کہ انسانی حقوق کی سرگرمیاں جنگ کے خلاف اہم ہتھیار ہیں۔‘