13 اکتوبر سے ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ سینیما گھروں میں پیش کر دی گئی ہے۔
یقیناً ماضی کی طرح یہ بھی ایک اچھی فلم ثابت ہوگی۔ پچھلے کئی سالوں سے فلم بین اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس فلم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ پاکستانی سینیما کی تاریخ کی سب سے بڑے بجٹ کی فلم ہے۔
اس فلم کو آج کے دور کے لحاظ سے تیار کیا گیا ہے۔
بڑے بڑے ناموں کے ساتھ فلم کو بہترین سینیماٹوگرافی اورجدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے بہترین پاکستانی فلم بنا دیا ہے لیکن ہم آج پرانی اور اصل فلم مولا جٹ پر بات کریں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس فلم میں ایسی کیا خاص چیز تھی جو آج 43 سال گزر جانے کے بعد بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے بلکہ اس کے کرداروں سے آج کی نسل بھی واقف ہے۔
مولا جٹ کے مصنف ناصر ادیب کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر پرانی مولا جٹ کا نئی مولا جٹ سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ کیونکہ نئی فلم کی بنیادی کہانی وہی ہے لیکن کردار نئے دور کے ہیں اور ان کی سوچ بھی نئی ہے، اس لیے ان کے کردار نئے انداز سے پیش کئے گئے ہیں اور اس بات کی تائید پرانی مولا جٹ میں نوری نت کا کردار ادا کرنے والے مصطفی قریشی بھی کرتے ہیں۔
نئی فلم میں دلچسپی تو پرومو نے پیدا کر ہی دی تھی لیکن مولا جٹ میں ہماری دلچسپی ایک پرانے پوسٹر نے پیدا کی۔
قصہ مختصر ہماری استاد رباب حسن صاحبہ نےاپنی والدہ کے پرانے رسالے اور بزرگوں کی کتابوں کو بائنڈنگ کرا کے رکھا ہوا تھا۔ جب ہماری ان پر نظر پڑی تو ہم نے ان سے چیدہ چیدہ رسالے جن میں لیل و نہار، ویمن ورلڈ، زینب النسا حمید اللہ کی ادارت میں نکلنے والا میگزین مرر اور آؤٹ لک، پاکستان کی چند خاص کاپیاں ان کی امانت کے طور پر لے آئے۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے یہ پاکستانی رسالے ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ جہاں مضامین خاصے دلچسپ ہیں وہیں ان میگزین میں شائع ہونے والے اشتہار بھی دلچسپی سے خالی نہیں اور نظر فوری ان پر جاتی ہے۔ اشتہار کا انداز، تحریر اور تصاویر کا اپنا ہی آہنگ تھا۔
ان ہی پرانے رسالوں میں ایک رسالہ ہفتہ روزہ حرمت تھا۔ جس پر تاریخ یکم مارچ،1982 درج تھی۔ صفحے پلٹتے ہوئے آخری صفحہ پر پہنچے تو باہو فلمز کارپوریشن کا ایک اشتہار تھا جس میں باہو فلمز کے تحت پیش کی جانے والی چار پنجابی فلموں کے اشتہار تھے جن کے نام مولا جٹ،مرزا جٹ، چن وریام اور حق مہر تھے۔
اس پرانے اشتہاری پوسٹر نے ہماری دلچسپی پرانی مولا جٹ میں پیدا کردی۔
مولا جٹ کی کہانی پر جاننے سے پہلےذرا تھوڑے سے تاریخی حوالے دیکھ لیں۔
کراچی کا ’جوبلی‘ سینیما پاکستان کا پہلا سینیما گھر تھا جس کی تعمیر کا آغاز ستمبر 48-1947 کو کیا گیا۔ جو اب ختم ہو کر مارکیٹ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
جبکہ پہلا فلمی سٹوڈیو لاہور کا پنچولی سٹوڈیو تھا،جس کے مالک سیٹھ دل سکھ پنچولی تھے۔ جس کا افتتاح سر غضنفر علی خان نے کیا۔ اس سٹوڈیو نے پاکستان میں تیار ہونے والی پہلی فلم ’تیری یاد‘ پیش کی ۔ مقامی زبانوں میں سب سے پہلے پنجابی فلمیں سینیما میں پیش کی گئیں۔
آخر یہ پرانی فلم مولاجٹ تھی کیا؟
ریکارڈ کے مطابق نو فروری 1979 کو فلم مولا جٹ سینیما گھروں کی زینت بنی۔ پاکستان کرونیکل میں عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں کہ دو فروری1979 کو اداکارہ انجمن کی پہلی فلم ’وعدے کی زنجیر‘ پیش کی گئی اور نو فروری کو فلم مولا جٹ۔
اس فلم کے ساتھ ہی سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی لازم و ملزوم ہوگئے۔ اس فلم کے پروڈیوسر سرور بھٹی ہدایت کار یونس ملک اور ادیب ناصر ادیب تھے جب کہ موسیقی ماسٹر عنایت حسین بھٹی کی تھی۔
جہاں کہانی اور ڈائیلاگ نے اس فلم کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے وہیں اس پر لگنے والی پے درپے سنسر پابندیوں نےبھی اسے شہرت دلائی۔
کہا جاتا ہے کہ اسے تین بار سنسر کی طرف سے روکا گیا۔ یہاں تک کہ فلمساز کو کئی بار عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔
آخرمولا جٹ پر پابندی کیوں لگی ؟
مولا جٹ کے مصنف ناصر ادیب نے ہمیں فون پر بتایا کہ فلم کی کہانی لکھتے ہوئے میرے ذہن میں اس وقت کا گھٹن زدہ سیاسی ماحول اور غلط اور درست کی جنگ تھی۔ سیاسی کشیدگی نے مارشل لا کا راستہ کھول دیا تھا۔ اس لیے میں نے اپنے کرداروں سے وہ سب کہلوایا جو آج تک لوگوں کے ذہنوں اور زبانوں پر ہے۔
انہیں یاد ہے کہ اس وقت کے فلم ساز سیٹھ سلیم اشرفی، جنہوں نے ہدایتکار نذرالاسلام کے ساتھ کئی فلمیں بنائیں تھیں، اس فلم کا سنسر پرنٹ دیکھا۔ فلم ختم ہوئی اور میرے پوچھنےسے پہلے ہی انھوں نے میرے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ ناصر صاحب اس فلم کو پولیس اتروا دے گی اور بعد میں ہوا بھی یہ ہی۔
اسے جنرل ضیاالحق کے کہنے پر پورے چار سال چلنے کے بعد MLO-81 کے تحت اتارا گیا اور کہا گیا کہ یہ فلم تشدد کو فروغ دے رہی ہے۔
مصطفیٰ قریشی جنہیں مولا جٹ نے نوری نت بنا دیا
مصطفیٰ قریشی کا کہنا ہے کہ انھوں نے نئی فلم دیکھی ہے۔ یہ فلم اچھی ہے اور انہیں یقین ہے کہ اچھا بزنس کرئے گی۔ ’لیکن ہماری مولا جٹ تو ایک غریب فلم تھی۔ سات آٹھ لاکھ میں بن گئی تھی اور ایک کروڑ کا بزنس کیا تھا۔ جبکہ نئی فلم دکا بجٹ سات آٹھ کروڑ ہے۔‘
مصطفیٰ صاحب کا مولا جٹ کے حوالےسے کہنا تھا کہ وہ اس لیے یادگار فلم بن گئی کیونکہ لوگوں کے دل کی آواز تھی۔ ’دباؤ کے دور میں اس فلم کے ڈائیلاگ لوگوں کے دلوں کو بھا گئے۔ اس فلم کو بین کرنے اور سنسر سرٹیفیکٹ نہ ملنے سے بھی شہرت ملی۔ پھر جب کورٹ سے سٹے مل گیا اور فلم سینیما گھروں کی زینت بنی تو کھڑکی توڑ ہفتے رہے۔‘
’اس فلم کی کامیابی یہ تھی کہ جب ہماری فلم سے متعلق خبر یا اشتہار لگتا جس میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کا نام موجود ہوتا تو فلم پورے پاکستان میں فروخت ہو جاتی یعنی سینیما گھر اس فلم کو ہاتھوں ہاتھ لیتے۔‘ انھوں نے ایک بات اور بتائی کہ فلم میں نوری نت اور مولا جٹ کا کردار ایک ساتھ اور آگے پیچھے چلتا ہے۔ نوری نت جہاں بدمعاش ہے وہیں اس کردار کو مولا جٹ کی مدد کرتے بھی دکھایا گیا ہے۔ یعنی انسانی جبلت کے مطابق بد ہمیشہ بد نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ دھرمیندر انہیں لند ن میں ملے۔ وہ شوٹنگ کے لیے وہاں آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے انہیں کھانے پر دعوت دی اور اپنی شوٹنگ ایک دن کے لیے ملتوی کردی۔ اور کھانے کے دوران مصطفیٰ قریشی کو بتایا کہ انھوں نے مولا جٹ کو دیکھ کر ایک پنجابی، دو ہندی فلمیں بنائیں۔ یہ ہے اس فلم کی کامیابی۔
مصطفیٰ صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ مولا جٹ کی دی ہوئی عزت تھی کہ لوگ ان کے ڈائیلاگ سناتے تھے۔
مولا جٹ کو دیکھے والے ناظرین کو آج کیا ہاد ہے ؟
سابق کرکٹر سکندر بخت نے فلم مولا جٹ لاہور میں دیکھی تھی۔ انھوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ان دنوں کرکٹ ٹور پر تھے۔ ’میں یو بی ایل کی کرکٹ ٹیم میں تھا۔ مولا جٹ کیونکہ مشہور فلم تھی اس لیے سب دوستوں نے مل کر یہ فلم دیکھی تھی۔ سینیما کا نام تو یاد نہیں لیکن بس یہ یاد ہے کہ سینیما کے سامنے کھڑے تھے اور پوسٹر دیکھ رہے تھے۔ سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ مولا جٹ دیکھی جائے۔‘
’ہم کرکٹ کھیلنے پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں میں جاتے تھے۔ کھیل کے بعد ہماری تفریح یہی تھی کہ ہم فلمیں دیکھیں۔ ہم عموماً مشورہ تانگے والے سے لیتے کہ کون سی فلم مشہور ہے ہمیں وہاں لے جاو۔ ہمارا شوق ہوتا تھا کہ جس میں سب سے اچھے ڈانس ہوں، وہ فلم سینیما میں جا کر دیکھیں۔‘
’مجھے اس فلم کے کئی ڈائیلاگ آج تک یاد ہیں۔ خاص کر سلطان راہی صاحب، جو بہت ہی ملنسار اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ ہم نے کئی بار ایک ساتھ کرکٹ کھیلی تھی۔ میں انہیں دیکھ کر چھیڑنے کے انداز میں کہتا تھا کہ ’نواں آیا ایں سوہنیا۔‘
’مصطفیٰ صاحب کی جو اداکاری تھی وہ بہت اچھی تھی۔ خاص کر وہ منظر، جب سلطان راہی کے دشمن آ رہے ہوتے تھے تو وہ غصے میں گنڈاسہ نکال کر اسے ڈنڈے پر چڑھا رہے ہوتے تھے۔ پھر وہ تیس چالیس آدمیوں کو اس گنڈاسے سے فارغ کر دیتے تھے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ایسی ہی ایک پنجابی فلم بشیرا تھی۔
’وہ بھی مجھے آج تک یاد ہے اور شاید یہ فلم پشاور میں دیکھی تھی۔ اس فلم کا ایک منظر ’دور سے سلطان راہی کا گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے لانا‘ بڑی سکرین پر بہت اچھا لگا تھا۔ میری پنجابی اتنی اچھی نہیں ہے لیکن یہ ہماری اس وقت تفریح ہوتی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شرافت صاحب کراچی کے کئی سینیماوں کے ٹیکنیکل انچارج رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فلم مولا جٹ ہم نے کراچی کے قیصر سینیما میں دیکھی تھی۔ ’اتنا رش تھا کہ سمجھ لیں جتنا رش اندر تھا اتنا ہی رش باہر تھا۔ مولا جٹ نوری نت کے بہت اچھے ڈائیلاگ تھے۔ مولا جٹ کے فلمساز سرور بھٹی صاحب ہمارے ساتھ سوسائٹی سینیما میں بیٹھتے تھے۔ ہم نے یہ فلم کئی بار ان کے ساتھ بھی دیکھی۔‘
راولپنڈی کے معین الدین بتاتے ہیں کہ انھوں نے یہ فلم راولپنڈی کے پی اے ایف سینیما میں دیکھی تھی۔ پی اے ایف کالج میں ہی پڑھتے تھے اور عمر کچھ 18-19 کے درمیان ہوگی۔
’یہ فلم ہم نے اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ دیکھی تھی۔ یہ بھی یاد ہے کہ صبح کا 9 سے 12 والا شودیکھا تھا۔ سب اداکاروں نے خوب گرجدار آواز کے ساتھ ڈائیلاگ بولے تھے۔ خود ہی جوش پیدا ہو جاتا تھا۔ لیکن بعض ڈائیلاگ اتنے تیزی کے ساتھ بولے گئے تھے کہ مجھے بالکل سمجھ نہیں آئے تھے جب کہ پنجابی تھا۔ اس وقت یہ فلم کچھ خاص اچھی لگی بھی نہیں تھی۔‘
کراچی کے شاہد مصطفی نے یہ فلم سکرین پر دیکھنے کے بجائے پروجیکٹر کے پردے پر دیکھی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس زمانے مین رواج تھا کہ پروجیکٹر پر گلیوں میں فلمیں لگائی جاتیں اور شوقین پیسے دے کر فلمیں دیکھتے۔ اس فلم کے ڈائیلاگ ہم دوست آپس میں بولتے۔ فلم مشہور تھی شاید اس لیے بھی یہ فلم دیکھی۔
پاکستانی سینیما کا فروغ کیسے ممکن ہے ؟
ناصر ادیب نئی فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ کے بھی مصنف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس فلم سے کافی امیدیں ہیں۔ ’مولا جٹ تو خیر ساڑھے چار سال چلی تھی۔ اللہ کرے کہ یہ فلم ساڑھے چار سال کیا دس سال چلے۔‘
’80 کی دہائی میں مولا جٹ نے کروڑوں روپے کی آمدنی حکومتی خزانے میں دی اور امید ہے کہ یہ مولا جٹ بھی اس سے کئی سو گنا زیادہ آمدنی پر ٹیکس حکومتی خزانے میں دے گی۔‘
ان کا ماننا ہے کہ پاکستانی سینیما کا گولڈن دور پنجابی فلم سے جڑا ہوا ہے۔ جب پنجابی سینیما آباد ہو جائے گا تو ہی پاکستان میں بھی فلمیں بننے لگیں گی ۔ ابھی سال میں دو تین اردو فلمیں ہی بنتی ہیں۔ پاکستانی سینیما میں کوئی تسلسل نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو بھی فلم انڈسٹری کو اوپر لانے میں مدد فراہم کرنا ہوگی۔ کیونکہ فلمی صنعت کے پاس سرمایہ نہیں۔ سبسڈی دینا ہوگی۔
’حکومت کے بغیر یہ صنعت نہیں چل سکتی۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ سینیما مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ فلم پروڈوسر کو بروقت پیسہ مہیا کریں۔ کیونکہ فلم کی ٹیم کو تو مکمل پیمنٹ اس ہی وقت ادا کی جاتی ہے جب فلم چل جاتی ہے۔‘
وہ مالکان سے نالاں نظر آئے کہ 50 فیصد منافع تو سینیما مالکان رکھ لیتے ہیں۔ خود سوچیں ہمیں کیا ملتا ہے۔ مصطفیٰ قریشی نے بھی ناصر ادیب کی طرح زور دیا کہ ہم اور ہماری فلمی صنعت حکومت کو لاکھوں روپے ٹیکس دیتی ہے لیکن اب ہماری صنعت کا پیہ جام ہو گیا ہے۔ ہم حکومت سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ جس طرح دیگر کمزور صنعتوں کو بڑھانے کے لیے ٹیکس کی مد میں چھوٹ دیتی ہے، ہمیں بھی دے تاکہ یہ صعنت ایک بار بھرپور انداز میں چل سکے۔