احتجاج ختم، لانگ مارچ کی تیاری کریں: عمران خان

نااہلی کے بعد آج یوٹیوب پر اپنے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ سپورٹرز سے درخواست کرتا ہوں کہ احتجاج ختم کر دیں۔ لوگ مشکل میں ہیں، آپ لانگ مارچ کی تیاری کریں۔ جب تک ملک میں قانون کی بالادستی نہیں ہوتی میری یہ تحریک چلتی رہے گی۔

عمران خان خطاب کے دوران (پی ٹی آئی یو ٹیوب آفیشل 21102022)

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کے فیصلے پر وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان کو پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیا ہے۔

اسلام آباد میں نیوزکانفرنس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے غلط حقائق الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کیے۔

وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیا ہے اور ان پر فوجداری مقدمے کا کہا گیا ہے۔


پی ٹی آئی کے یو ٹیوب چینل پر خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا آج یہ کہنا تھا سپورٹرز احتجاج ختم کر دیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سپورٹرز سے درخواست کرتا ہوں کہ احتجاج ختم کر دیں۔ لوگ مشکل میں ہیں، آپ لانگ مارچ کی تیاری کریں۔

جب تک ملک میں قانون کی بالادستی نہیں ہوتی میری یہ تحریک چلتی رہے گی۔

ملک ایک فیصلہ کن موڑ پہ ہے۔ میں آپ کو کال دوں گا، یہ سب سے بڑی احتجاجی تحریک ہو گی۔

دوران لائیو خطاب انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ایک پارٹی جو سب کو اکٹھا رکھ سکتی ہے اسے ختم کیا جائے۔ میں نے عدالت میں ایک ایک رسید دکھائی۔ فلیٹ بیچا تو اپنے ملک پیسہ لے کے آیا۔ میرا مقابلہ اس آدمی سے کر رہے ہیں جس کی ملک سے باہر اربوں کی جائیداد ہے۔ ‘

’کسے اس ملک میں بچایا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے مجرم جن پر اربوں روپے کے کیسز ہیں۔ وہ اسمبلی میں بیٹھ کر قانون پاس کرتے ہیں اور گیارہ سو ارب اپنا معاف کروا لیتے ہیں۔ چھ مہینے میں پاکستان کو اس حال پہ لے آئے ہیں کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہو گئی ہے۔‘

حالیہ نااہلی کے حوالے سے ان کا یہ کہنا تھا کہ ’یہ سب کچھ میرا منہ بند کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘


الیکشن کمیشن کے باہر فائرنگ کی ایف آئی آر درج 

 


عمران خان کی نااہلی کے بعد بنی گالہ میں پارٹی رہنماؤں کی ملاقاتیں
 انڈپینڈنٹ اردو کا فیس بک لائیو؛


عمران خان کی نااہلی کے بعد شیریں مزاری کا صدر سے سوال

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کا اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہنا تھا کہ ’صدر نہ صرف ملک کا سربراہ ہوتا ہے بلکہ مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوتا ہے۔ شہریوں بالخصوص امپورٹڈ حکومت کے سیاسی مخالفین پر بار بار زیر حراست تشدد کیا جا رہا ہے، آئین اور قانون کی خلاف ورزی بغیر کسی ڈر کے کی جا رہی ہے، پچھلے چھ ماہ سے سب سے بڑی اور پاکستان کی واحد قومی جماعت کے چیئرمین کو ’امریکی رجیم چینج سازش‘ کے ذریعے جعلی کیسز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اب انہیں نااہل کر دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بطور سربراہ ریاست کیا آپ ان سازشیوں کی مدد سے ملک کو ایسے ہی معاشی و سیاسی انتشار کی طرف جاتا دیکھتے رہیں گے؟ حتی کہ آپ کو بھی نہیں چھوڑا جا رہا؟‘


الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کو نااہل قرار دیے جانے پر پی ٹی آئی کارکنوں کا لاہور میں مختلف مقامات پر احتجاج، انڈپینڈنٹ اردو کا فیس بک لائیو
 


الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو توشہ خان ریفرنس میں نااہل قرار دے دیا۔

جمعے کو الیکشن کمیشن کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین اس فیصلے کے بعد رکن قومی اسمبلی نہیں رہے۔ الیکشن کمیشن کے پانچ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ متفقہ طور پر سنایا ہے۔

نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے گیے نااہلی ریفرنس کے فیصلے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کونا اہل قرار دے دیا گیا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو ڈی سیٹ کرتے ہوئے جھوٹی سٹیٹمنٹ جمع کروانے پر نااہل قرار دیا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’یہ پانچ رکنی بنچ کا متفقہ فیصلہ ہے۔ عمران خان موجودہ قومی اسمبلی کی مدت کے لیے نااہل قرار دیے گئے ہیں۔ جھوٹی سٹیٹمنٹ جمع کرانے پر عمران خان کے خلاف فوجداری کاروائی کی جائے گی، عمران خان کو آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نااہل کیا گیا۔ 63 ون پی کے تحت نااہلی موجودہ اسمبلی کی رکنیت کے لیے ہے۔‘

فیصلے میں عمران خان کو کرپٹ پریکٹس کا مرتکب بھی قرار دیا گیا۔

پاکستان کے وزیرخارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’عمران خان اپنے مخالفین کی مبینہ کرپشن پر جھوٹ پھیلاتے ہیں لیکن وہ خود نااہل ہو گئے ہیں۔‘

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کارکن لاہور کے علاقے شاہدرہ اور چونگی امر سدھو میں احتجاج کے لیے نکل آئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی اپنے کارکنوں کو احتجاج کی کال دے دی۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے فیصلے کے بعد لاہور اور اسلام آباد کے بعد پشاور میں بھی تحریک انصاف کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور موٹروے ٹول پلازہ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔

مظاہرین نے ٹائر جلا کر الیکشن کمیشن اور حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔

پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن میں جواب

عمران خان کے وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ ’ہم نے سارے چالان، اثاثے، ٹیکس ریٹرن جواب میں لگا دیے۔ اگر کسی نے اثاثے ظاہر نہیں کیے تو سپیکر ریفرنس نہیں بھیجتا، الیکشن کمیشن خود کارروائی کر سکتا ہے اور یہ کام بھی 120 دن کے اندر کرنا ہے،الیکشن کمیشن کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں۔‘

محسن رانجھا کے وکیل خالد اسحاق نے کہا کہ ’عمران خان نے اثاثے فارم بی میں ظاہر نہیں کیے۔ اگر الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ تفصیلات جمع کروانی تھیں، متعلقہ شخص کرپٹ پریکٹس کا مرتکب ہے، الیکشن کمیشن اسے نااہل کر سکتا ہے۔‘

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’آج پاکستان میں انقلاب کی ابتدا ہوگئی ہے۔ میں پاکستان کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ اپنے حق اور آئین کے حصول کے تحفظ کے لیے باہر نکلیں۔‘

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ انہیں ’اس الیکشن کمیشن سے یہی توقع تھی۔ وہ کیسے بھاری اکثریت سے ضمنی انتخابات میں کامیابی والے شخص کو نااہل کر سکتا ہے۔‘

فیصلے سے قبل الیکشن کمیشن نے اسلام آباد پولیس کو ایک خط لکھ کر آج الیکشن کمیشن کی عمارت کے اندر اور باہر ’فول پروف‘ سکیورٹی کی بھی درخواست کی تاکہ کسی ’ناخوشگوار واقعے‘ سے بچا جا سکے۔

الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا کہ یہ معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے لیے فوری طور پر تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔ اس سے قبل بھی اہم سیاسی نوعیت کے مقدمات میں الیکشن کمیشن نے اضافی سکیورٹی کی درخواست کی تھی۔

الیکشن کمیشن نے گذشتہ ماہ 19 ستمبر کو توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

توشہ خانہ ریفرنس کیا ہے اور کب دائر کیا گیا؟

توشہ خانہ وہ شعبہ ہے جہاں حکمرانوں اور اعلیٰ حکام کو ملنے والے تحائف رکھے جاتے ہیں۔ توشہ خانہ کے قواعد کے مطابق یہ تحائف متعلقہ افراد خرید سکتے ہیں مگر اس کی تفصیل ظاہر کرنا ضروری ہوتی ہے۔

رواں برس چار اگست کو مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی محسن نواز رانجھا نے سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 63 اور 62کے تحت ریفرنس دائر کیا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر ان تحفوں کو الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ تحفے ظاہر نہ کر کے عمران خان صادق اور امین نہیں رہے اس لیے انہیں نااہل قرار دیا جائے۔

ریفرنس میں سرکاری تخائف کو بیرون ملک فروخت کرنے کا الزام بھی لگایا گیا اور تمام دستاویزی ثبوت بھی ریفرنس کے ہمراہ جمع کرائے گئے تھے۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ کئی تحائف کی قیمت ادا کیے بغیر سابق وزیراعظم عمران خان اپنے گھر لے گئے جبکہ کچھ قیمتی تحائف کی قیمت توشہ خانہ میں اس وقت جمع کروائی گئی جب انہیں وہ پہلے ہی وہ فروخت کر چکے تھے۔

سپیکر قومی اسمبلی نے ریفرنس چیف الیکشن کمشنر کو بھجوایا تھا، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ریفرنس پر سماعت کی اور عمران خان سے تحریری جواب طلب کیا۔

عمران خان کا الیکشن کمیشن میں جواب

سات ستمبر کو عمران خان نے الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ ریفرنس میں اپنا جواب جمع کروایا تھا، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس بلا جواز اور بے بنیاد ہے۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’درخواست گزار اور سپیکر کا ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے اور سیاسی مقاصد کے لیے کیس بنایا گیا ہے۔‘

چیئرمین تحریک انصاف نے مزید کہا تھا کہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجنا ہی غیر قانونی ہے، یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں ہے اور نہ ہی وہاں قابل سماعت ہے۔‘

عمران خان کا اپنے جواب میں مزید کہنا تھا کہ اثاثوں کی تفصیلات غلط ہونے پر الیکشن کمیشن 120 دن کے اندر کارروائی کر سکتا ہے، اس کیس پر اب کارروائی نہیں ہو سکتی۔

سابق وزیراعظم نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ کابینہ ڈویژن کے آفس میمورنڈم کے مطابق تمام تحائف توشہ خانہ میں جمع ہوں گے اور 30 ہزار روپے مالیت تک کا تحفہ وصول کرنے والا بغیر ادائیگی کے رکھ سکتا ہے جبکہ 30 ہزار روپے مالیت سے زائد کے تحائف کو 50 فیصد ادائیگی کے بعد لیا جا سکتا ہے۔

تحائف کی تفصیل

چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں تحائف کی تفصیلات بھی پیش کی گئی تھیں، جن کے مطابق:

  • یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 تک تمام اہم شخصیات کو 329 تحائف دیے گئے۔
  • سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے، جن میں گلدان، ٹیبل کورز، چھوٹے قالین، پرفیومز، ڈیکوریشن پیس، پیپر ویٹ، پین ہولڈرز، گھڑیاں، قلم، کف لنک، انگوٹھی، کڑے اور لاکٹ شامل ہیں۔
  • صرف 14 تحائف کی قیمت 30 ہزار روپے مالیت سے زیادہ تھی۔
  • جولائی 2018 سے جون 2019 کے دوران موصول 31 تحائف میں سے صرف چار اپنے پاس رکھے گئے اور ان تحائف کی ادا کی گئی مالیت دو کروڑ 15 لاکھ 64 ہزار روپے ہے۔
  • جولائی 2019 سے جون 2020 تک موصول ہونے والے نو تحائف کی ادا کی گئی رقم 17 لاکھ 19 ہزار 700 روپے ہے۔
  • جولائی 2020 سے جون 2021 تک موصول ہونے والے 12 تحائف کی ادا شدہ رقم ایک کروڑ 16 لاکھ 85 ہزار 250 روپے ہے۔
  • جولائی 2021 سے جون 2022 تک چھ تحائف اپنے پاس رکھے اور ان کی مد میں 31 لاکھ 7500 روپے کی رقم ادا کی۔
  • تحائف کی ادا کی گئی کل رقم تین کروڑ80 لاکھ 76 ہزار روپے ہے۔
  • چیئرمین تحریک انصاف کے مطابق سال 22-2021 کے دوران ملے دو تحائف کی تفصیلات ابھی گوشواروں میں جمع ہونی ہیں۔

توشہ خانہ کیس کی بنیاد کیا تھی؟

ریفرنس سے قبل گذشتہ برس صحافی رانا ابرار نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں درخواست دی تھی کہ وہ وزیراعظم کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں، جس کے بعد انفارمیشن کمیشن نے درخواست منظور کرتے ہوئے کابینہ ڈویژن کو تحائف کی معلومات فراہم کرنے کی ہدایات دیں۔

 تاہم کابینہ ڈویژن نے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا اور موقف اپنایا کہ ان تحائف کی تفصیل بتانا غیر قانونی ہے، اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

رواں برس 20 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایات جاری کی تھیں کہ انفارمیشن کمیشن کے فیصلے پر تعمیل کروائی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان