سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کی ایک ویڈیو 2019 میں اسی کمپنی کے انسٹا گرام پر پوسٹ کی جاتی ہے۔
مارک اس ویڈیو میں کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں: ’ایک سیکنڈ کے لیے سوچوں کہ اربوں لوگوں کا نجی ڈیٹا، خفیہ باتیں، زندگی اور مستقبل ایک ہی شخص کے کنٹرول میں ہے۔‘
اس ویڈیو پر پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی تھی اور یوں سمجھا جا رہا تھا کہ مارک نے فیس بک سمیت اپنی کمپنی میٹا کی ملکیت انسٹاگرام اور وٹس ایپ پر موجود صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لی ہے۔
لیکن یہ ویڈیو جعلی نکلی اور ماہرین نے جب کھوج لگائی تو مارک زکربرگ کی یہ ویڈیو 2017 میں کی گئی ایک تقریر کی ویڈیو استعمال کر کے بنائی گئی تھی۔
بعد میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق یہ بھی پتہ چلا کہ یہ ویڈیو اسرائیل کی ایک ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کمپنی نے عوام کی آگاہی کے لیے بنائی تھی لیکن اس سے جو نقصان ہونا تھا وہ ہو گیا، اور فیس بک سمیت انسٹاگرام اور وٹس ایپ صارفین میں خوف پھیل گیا۔
پاکستان میں بھی کچھ دنوں سے ڈیپ فیک کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے اور اس کی وجہ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی سمیت دیگر سیاست دانوں اور اہم شخصیات کی لیک ہونے والی مبینہ آڈیوز اور ویڈیوز ہیں۔
اعظم سواتی نے گذشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ان کی اور ان کی اہلیہ کی ایک نجی ویڈیو ان کی بیٹی کو بھیجی گئی تھی اور یہ ذکر کرتے ہوئے اعظم سواتی رو بھی پڑے تھے۔
اعظم سواتی کی پریس کانفرنس کے چند ہی گھنٹوں بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری ہوئی، جس کے مطابق فرانزک سے یہ ویڈیو جعلی ثابت ہوئی، جسے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی مدد سے مختلف ویڈیو کلپس جوڑ کر بنایا گیا تھا۔
چند روز قبل دن پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کی بھی ایک نجی ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی اور صارفین اسے بھی ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی کارستانی قرار دے رہے ہیں، تاہم اس ویڈیو کے حوالے سے ایف آئی اے اور نہ ہی لیگی رہنما نے ابھی تک کوئی بیان جاری کیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کیا ہے؟ ڈیپ فیک ویڈیوز کو پہچاننے کا طریقہ کیا ہے؟ اور اس سے کیسے بچا سکتا ہے؟ ان سطور میں ہم نے ان ہی سوالات کا احاطہ کیا ہے۔
ڈیپ فیک ویڈیو کیا ہے؟
کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ڈیپ فیک وہ ویڈیو یا آڈیو ہے، جس میں ایک شخص کا چہرہ یا آواز کسی دوسرے شخص کے چہرے یا آواز کے اوپر لگایا جائے اور یہ تاثر ملے کہ ویڈیو میں دکھائی دینے والا شخص اصلی ہے۔
اس کی مثال اوپر بیان کی گئی ہے کہ کس طرح مارک زکربرگ کی ایک تقریر کسی دوسرے شخص کی آواز کے ساتھ ملا کر ویڈیو بنائی گئی تھی، جو بظاہر اصلی لیکن حقیقتاً جعلی تھی اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے بنائی گئی تھی۔
ٹیکنالوجی کے حوالے سے تحقیقی مضامین چھاپنے والی ویب سائٹ ’ٹیک سلینگ‘ کے مطابق ڈیپ فیک وہ طریقہ ہے، جس کے ذریعے ویڈیو کو کمپیوٹر پر جعلی طریقے سے تبدیل کر کے ایک ایسی ویڈیو بنائی جاتی ہے، جو اصل لگ رہی ہو اور عام شخص کے لیے اسے پہچاننا مشکل ہو کہ یہ واقعی جعلی ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق ڈیپ فیک ویڈیوز مصنوعی ذہانت کے ذریعے کمپیوٹر پر بنائی جاتی ہیں اور یہ زیادہ تر معروف شخصیات، سیاست دانوں، فنکاروں یا معروف کارباروی شخصیات کی ہوتی ہیں۔
ماضی میں امریکی صدور ڈونلڈ ٹرمپ اور بارک اوباما سمیت ہالی وڈ اور بالی وڈ اداکاروں کی ڈیپ فیک ویڈیوز بھی انٹرنیٹ پر آچکی ہیں۔ ہالی وڈ کی معروف اداکارہ ایما واٹسن کی سینکڑوں ڈیپ فیک پورن ویڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہے۔
ٹیک سلینگ کے مطابق ڈیپ فیک ویڈیوز زیادہ تر معروف شخصیات کی بنائی جاتی ہیں، اور اس کی بڑی وجہ ایسی ہستیوں کی انٹرنیٹ پر تصاویر اور ویڈیوز کیی موجودگی ہے۔
ڈیپ فیک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مطلوبہ شخصیت کی بہت زیادہ تصاویر یا ویڈیوز تک رسائی ضروری ہوتی ہے۔
ٹیک سلینگ کے مطابق ڈیپ فیک کا خیال نیا نہیں ہے، بلکہ 1990 سے کچھ محققین اور یونیورسٹیاں اس ٹیکنالوجی پر کام شروع کر چکی تھیں کہ کس طرح کسی ویڈیو یا آڈیو کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے تبدیل کرکے ڈیپ فیک ویڈیو بنائی جا سکتی ہے۔
ڈیپ فیک ویڈیو بنانے میں ٹیک سلینگ کے مطابق دو لرننگ ماڈلز استعمال ہوتے ہیں، جس میں ایک ماڈل کے ذریعے مختلف تصاویر یا ویڈیوز کو جوڑ کر ایک ویڈیو بنائی جاتی ہے، اور دوسرے ماڈل میں بنائی گئی ڈیپ فیک ویڈیو کو چیک کیا جاتا ہے کہ آیا بنائی گئی جعلی ویڈیو ڈیٹیکٹ ہوتی ہے یا نہیں؟
جب دوسرے ماڈل میں ڈیپ فیک ویڈیو ڈیٹیکٹ نہ ہو پائے، تو اس ویڈیو کو ریلیز کر دیا جاتا ہے اور پھر عام شخص کے لیے اس ویڈیو کی حقیقت جاننا مشکل ہو جاتا ہے۔
کیا ڈیپ فیک ویڈیو کو پہچاننا ممکن ہے؟
ویب سائٹ ٹیک سلینگ کے مطابق ڈیپ فیک ویڈیوز کی ٹیکنالوجی دن بدن ترقی کر رہی ہے اور ایسی ویڈیوز بنانے کے ماہرین اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کے شاہکاروں کی حقیقت کا کسی کو علم نہ ہونے پائے۔
ابتدا میں ڈیپ فیک ویڈیوز میں آنکھیں بالکل ساکت رہتی تھیں، یعنی اس ویڈیو میں نظر آنے والی شخصیت آنکھیں نہیں جھپکتی تھی، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس کمی پر قابو پا لیا گیا ہے اور اب ڈیپ فیک ویڈیوز میں آنکھیں جھپکتی نظر آتی ہیں۔
ڈیپ فیک کو ڈیٹیکٹ کرنے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی ٹیکنالوجی متعارف کروانے کے لیے مائیکروسافٹ، فیس بک اور کچھ دیگر کمپینوں نے ایک اتحاد بھی تشکیل دیا ہے۔
تاہم کسی کم ماہر شخص کی بنائی گئی ڈیپ فیک ویڈیو کو دیکھ کر اس کے جعلی ہونے سے متعلق تھوڑا بہت اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں آن لائن سکیورٹی اور میڈیا کے حقوق پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’میڈیا میٹر فار ڈیموکریسی‘ کے سربراہ اسد بیگ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈیپ فیک بنانے کے لیے کسی کمپیوٹر کو ایک خاص شخص کے مطابق ڈیٹا مہیا کیا جاتا ہے اور وہ کمپیوٹر اسی کے مطابق ایک نیا چہرہ بناتا ہے تاکہ اس کو فیک کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسد بیگ نے بتایا کہ پاکستان، افغانستان، ایران اور ایسے دوسرے معاشرے اس سلسلے میں خطرناک ہیں کیونکہ ان ممالک میں ویڈیو کے جعلی ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے بہت برا سمجھا جاتا ہے۔
اس سوال کہ ڈیپ فیک سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ کے جواب میں اسد بیگ نے بتایا کہ ڈیپ فیک سے بچنا بہت مشکل ہے کیونکہ کوئی ایسا انٹرنیٹ پلیٹ فارم موجود نہیں جہاں تصویر یا ویڈیو اپ لوڈ کر کے محفوظ رہا جا سکے۔
انہوں نے دنیا بھر میں ڈیپ فیک ویڈیوز سے متعلق سخت قوانین بنائے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی مغرب میں بنائی گئی ہے، لیکن ان کو اندازہ نہیں ہے کہ اس کا مشرقی معاشروں کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔
ڈیپ فیک چیک کرنے والے ٹولز
جعلی تصاویر اور ویڈیوز کو چیک کرنے کے لیے کچھ بنیادی ٹولز موجود ہیں جن کے ذریعے تھوڑا بہت اندازہ لگانا ممکن ہوتا ہے کہ کوئی مخصوص تصویر یا ویڈیو جعلی ہے، لیکن یہ ٹولز خصوصی طور پر ڈیپ فیک کے لیے نہیں، بلکہ عام جعلی تصاویر اور ویڈیوز کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
انہی ٹولز میں سے ایک گوگل کا فراہم کردہ ’گوگل ریورس امیج سرچ‘ ہے، جس کو استعمال کرنا بہت آسان ہے اور اس کے ذریعے بعض ماہرین کے مطابق ڈیپ فیک کا تھوڑا بہت اندازہ لگانا ممکن ہے۔
گوگل پیج پر کیمرے والے نشان پر کلک کریں اور تصویر گوگل پر اپ لوڈ کریں جس پر گوگل ایک سرچ ہسٹری کھولتا ہے، جو بتاتی ہے کہ مذکورہ تصویر کہاں کہاں استعمال ہوئی ہے اور اس کا منبع کیا ہے۔
کسی ویڈیو کو چیک کرنے کی غرض سے اس کے کسی حصے کا ایک سکرین شاٹ گوگل امیج پر اپ لوڈ کرنے سے اس کی ہسٹری دیکھی جا سکتی ہے۔