پاکستان کی وفاقی وزارت خارجہ 29 ستمبر کو سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود کی سبکدوشی کے بعد سے انتظامی سربراہ کے بغیر کام کر رہی ہے۔
سہیل محمود کی مدت ملازمت پوری ہونے کے فوراً بعد وفاقی سیکریٹری خارجہ کے عہدے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کو کچھ نام بھجوائے گئے تھے، تاہم ڈیڑھ مہینے بعد بھی نئے وفاقی سیکریٹری خارجہ کی تعیناتی سے متعلق ایوان وزیراعظم میں ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو پایا ہے۔
اس وقت دفتر خارجہ میں یورپ ڈویژن کے سپیشل سیکریٹری جوہر سلیم قائم مقام وفاقی سیکریٹری خارجہ کی حیثیت سے اضافی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
سابق وفاقی سیکرٹری خارجہ سہیل محمود تین سال سے زیادہ عرصے کے لیے وزارت خارجہ کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے کے بعد ریٹائر ہوئے تھے۔
سہیل محمود نے سابق وفاقی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے بعد اپریل 2019 میں اس اہم عہدے کا چارج سنبھالا تھا۔
تاخیر کی وجہ؟
اس سلسلے میں سابق سفیر عبدالباسط نے وفاقی سیکریٹری خارجہ کی تعیناتی میں تاخیر کو ’روایت سے ہٹ کر عمل‘ قرار دیا۔
تاہم انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے وضاحت کی کہ اس تاخیر سے عملی طور پر خاص فرق نہیں پڑ رہا کیونکہ سب سے سینیئر سفارت کار جوہر سلیم قائم مقام وفاقی سیکریٹری خارجہ کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
عبدالباسط نے کہا کہ ’سینیئر ترین سفارت کار ہونے کی وجہ سے بہتر ہو گا اگر حکومت جوہر سلیم کو ہی وفاقی سیکریٹری خارجہ تعینات کر دے، لیکن لیڈر شپ شاید کسی ایسے سفارت کار کو وفاقی سیکریٹری خارجہ لگانا چاہتی ہے جن کی ابھی گریڈ 22 میں ترقی نہیں ہوئی اور اسی کا انتظار کیا جا رہا ہے، جس کے بعد وفاقی سیکریٹری خارجہ کی تعیناتی یقیناً ہو جائے گی۔‘
اس عہدے کے لیے کون کون زیر غور ہے؟
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق سیکریٹری خارجہ کے عہدے کے لیے وفاقی حکومت تین ناموں پر غور کر رہی ہے، جن میں جوہر سلیم اور اسد مجید خان سب سے سینیئر ہیں جبکہ ایک نام سائرس سجاد قاضی کا ہے۔
اسد مجید خان، جو امریکہ میں بھی پاکستانی سفیر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں، اس وقت برسلز میں بطور سفیر ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں، تاہم انہوں نے آئندہ سال سبکدوش ہو جانا ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق اسد مجید خان کی مدت ملازمت کا وقت بہت ہونے کے باعث وہ وفاقی سیکریٹری خارجہ کے عہدے کے لیے ہاٹ فیورٹ نہیں ہیں۔
ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دفتر خارجہ میں ترکی میں پاکستان کے سفیر سائرس سجاد قاضی کو وفاقی سیکریٹری خارجہ کے عہدے کے لیے سب سے زیادہ موزوں سمجھا جا رہا ہے۔
تاہم سائرس سجاد قاضی گریڈ 21 کے سرکاری ملازم ہیں اور وفاقی سیکریٹری خارجہ کی حیثیت سے تعیناتی کے لیے گریڈ 22 میں ہونا لازمی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز کی حکومت سائرس سجاد قاضی کی گریڈ 22 میں ترقی کا انتظار کر رہی ہے، جو اسی مہینے متوقع ہے اور جس کے فوراً بعد انہیں اس عہدے پر تعینات کر دیا جائے گا۔
سابق سفیر آصف درانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میں نہیں سمجھتا کہ یہ کچھ غیر معمولی ہے، کیونکہ جوہر سلیم بھی چند ماہ میں ریٹائر ہو جائیں گے، اس لیے وفاقی حکومت کچھ وقت لے رہی ہے تاکہ تب تک نئے افسران گریڈ 22 میں ترقی پا لیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ یہ اتحادی حکومت ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس تعیناتی پر مزید بحث ہو رہی ہو۔ ’ایک جماعت کی حکومت ہوتی تو شاید اتنا وقت نہ لگتا۔‘
دفتر خارجہ کی سینیارٹی فہرست میں چین میں پاکستان کے سفیر معین الحق کا نام بھی شامل ہے اور وہ بھی وفاقی سیکریٹری خارجہ کے عہدے کے لیے زیر غور ہیں۔
دفتر خارجہ کی دوسری تعیناتیاں
وفاقی سیکریٹری خارجہ کا عہدہ تو خالی ہے، جبکہ دوسری جانب دفتر خارجہ کے ایک دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں ایک ہفتے کے اندر دو تعیناتیاں عمل میں آگئی ہیں۔
سابق ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار کی فرانس میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے تعیناتی کے بعد ترجمان کا عہدہ خالی تھا، جسے محض ایک ہفتے میں پُر کر دیا گیا۔
گریڈ 20 کی افسر ممتاز زہرا بلوچ کو ترجمان دفتر خارجہ جبکہ صائمہ سید کو نائب ترجمان دفتر خارجہ تعینات کیا گیا۔
جمعے کو جاری ہونے والے دفتر خارجہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق ممتاز زہرا، جو ایڈیشنل سیکریٹری ایشیا پیسفیک بھی ہیں، کو ترجمان دفتر خارجہ مقرر کیا گیا۔
اسی طرح سٹریجک کمیونیکشن ڈویژن ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر جنرل صائمہ سید، کو دفتر خارجہ کی نائب ترجمان کی اضافی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔
ماضی میں عام طور پر دفتر خارجہ کے ترجمان کی حیثیت سے ایک ہی افسر کو تعینات کیا جاتا تھا، جبکہ اس مرتبہ نائب ترجمان کا عہدہ بھی متعارف کروا دیا گیا ہے۔
سال 1992 کے بعد یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ترجمان دفتر خارجہ کا عہدہ پورے ایک ہفتے کے لیے خالی رہا، تاہم وفاقی سیکریٹری خارجہ کے دفتر میں مستقل تعیناتی میں ابھی وقت باقی ہے۔