افغانستان خاص طور پر کابل میں طالبان کی آمد سے پہلے گاڑیوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں، لیکن طالبان کے اقتدار سنبھالتے ہی گاڑیوں کی خرید و فروخت میں تیزی سے کمی آئی ہے اور ان کی قیمتیں ڈرامائی حد تک گر گئی ہیں۔
کابل میں دنیا کی مہنگی گاڑیاں پائی جاتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ رش کو کم کرنے کے لیے سابقہ حکومت نے بڑے بارگین سینٹرز کو کابل شہر سے باہر منتقل کر دیا تھا۔
طالبان کے آنے کے بعد نئی گاڑیوں کی برآمدات تقریباً بند ہے اور ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے لیکن گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اب خریداروں کو بارگین سینٹر تک جانے کی ضرورت ہی نہیں کیوں کہ اب ہر جگہ گاڑیوں کا بھاؤ تاؤ ہوتا ہے۔
کابل کے ڈسٹرکٹ 12 (احمد شاہ بابا مینہ) میں ایک بڑا جمعہ بازار لگتا ہے، جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنی گاڑیاں فروخت کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔
ضلع ترہ خیل سے تعلق رکھنے والے راحت اللہ کہتے ہیں کہ ’لوگ مجبور ہیں کہ اپنی گاڑیاں یہاں لاکر فروخت کریں کیونکہ ان کے پاس کام کاج نہیں ہے اور کاروبار خراب ہو گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ گھر بار چلانے کی غرض سے اپنے گھر کا سامان بیچ رہے ہیں، گاڑیاں بیچ رہے ہیں، یعنی جو بھی فروخت ہونے کے قابل ہے، اسے بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ چھ ہزار ڈالر میں خریدی جانے والی گاڑی کی قیمت تین ہزار ڈالر سے بھی نیچے آگئی ہے۔
’میں نے ایک کرولا 2900 ڈالر میں خریدی تھی لیکن 1100 ڈالر میں بیچ دی اور وجہ یہ ہے کہ کسی کے پاس کام نہیں توجب کام نہ ہو، آمدنی نہ ہو تو لوگ کیسے کچھ خرید پائیں گے۔‘
جمعہ بازار کے پاس ایک بارگین سینٹر کے مالک کریم پکتیاوال نے بتایا: ’ہم لگ بھگ 20 سال سے یہ کام کر رہے ہیں اور 800 سے زیادہ مختلف قسم کی گاڑیاں بیچ چکے ہیں لیکن طالبان کے آنے کے بعد ہم اپنے اس کاروبار میں 40 فیصد خسارے کا سامنا کر چکے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’طالبان کے آنے سے پہلے ہماری بلٹ پروف گاڑیوں کی قیمت ایک لاکھ سے ایک لاکھ 10 ہزار ڈالر تک ہوتی تھی لیکن اب اسے کوئی 40 ہزار ڈالر میں بھی نہیں خریدتا کیونکہ جن کے پاس پیسہ تھا وہ سب افغانستان چھوڑ کر جا چکے ہیں اور جو رہ گئے ہیں ان کے پاس ان جیسی گاڑیاں خریدنے کے پیسے نہیں۔‘