ہنڈائی اور کیا کی گاڑیاں کیوں زیادہ چوری ہوتی ہیں؟

یہ چوریاں بظاہر دو سال قبل امریکہ کے شہر ملواکی میں شروع ہوئی تھیں، جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد یہ دیگر علاقوں تک بھی پھیل گئیں۔ ویڈیوز میں چوروں کو ان گاڑیوں کے اگنیشن کور اتارتے، سٹارٹ کرتے اور لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

امریکہ میں گاڑیوں کی چوری کے متعدد واقعات سامنے آنے کے بعد ہنڈائی اور کیا دونوں نے اپنے بیانات میں اعتراف کیا کہ چور ان کی کچھ گاڑیاں چرا رہے ہیں (ہنڈائی نشاط)

ہنڈائی اور کیا کمپنی کی کاریں اور کچھ ایس یو وی گاڑیوں میں چوری سے بچانے والی ایک ’اہم‘ ڈیوائس نہیں ہے اور یہ بات چور بھی جانتے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق انشورنس انڈسٹری کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ باقی آٹو انڈسٹری کے مقابلے میں ان کاروں کی چوری کی شرح دو گنا زیادہ ہے، کیونکہ ان کی چابیوں میں چوری سے بچانے والے’اموبیلائزر‘ سسٹم والی چِپ کی کمی ہے۔

یہ چوریاں بظاہر دو سال قبل امریکہ کے شہر ملواکی کے علاقے میں شروع ہوئی تھیں اور سوشل میڈیا پر ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد مڈویسٹ کے متعدد شہروں اور کولوراڈو اور نیو میکسیکو تک پھیل گئیں۔

انشورنس انسٹی ٹیوٹ برائے ہائی وے سیفٹی کے ایک یونٹ ہائی وے لاس ڈیٹا انسٹی ٹیوٹ کو معلوم ہوا کہ بغیر اموبیلائزرز کے  ہنڈائی اور کیا کی چوری ہونے والی بیمہ شدہ کاروں کے دعوؤں کی شرح 2.18 فی ایک ہزار رہی جبکہ باقی ساری صنعت کے اعدادوشمار ملا کر یہ شرح 1.21 ہے۔

جمعرات کو جاری کیے گئے اپنے نتائج میں اس انسٹی ٹیوٹ نے بتایا کہ انہوں نے 2015 سے 2019 کے ماڈلز کی 2021 میں چوری ہونے والی گاڑیوں کے دعوؤں کا مطالعہ کیا۔

خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکہ میں سال 2015 سے 2019 تک گاڑیوں کے جو ماڈلز آئے ان میں ہنڈائی اور کیا گاڑیوں کے چوری کے دعوے تقریباً دو گنا زیادہ تھے۔

چپ والی چابیاں، جو 1990 کی دہائی میں آنا شروع ہوئیں، اگنیشن سوئچ میں لگی ایک اور چپ کے ساتھ کنیکٹ ہوتی ہیں۔ اگر دونوں ایک جیسی ہوں تو ، انجن سٹارٹ ہوجائے گا، لیکن اگر وہ ایک جیسی نہ ہوں تو  چور انجن کو سٹارٹ نہیں کرسکتا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ جنوبی کوریا کی دو آٹومیکرز کی گاڑیوں جیساکہ کیا ری او اور سپورٹیج اور ہنڈائی ایکسنٹ کی کم قیمت والی گاڑیوں کی چابیوں میں اموبیلائزر سسٹم نہیں ہے۔

انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر نائب صدر میٹ مور نے کہا: ’ہمارے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اموبیلائزر متعارف کروانے کے بعد گاڑیوں کی چوری میں کمی واقع ہوئی۔ بدقسمتی سے ہنڈائی اور کیا معیاری سازوسامان بنانے میں دیگر آٹومیکرز سے پیچھے ہیں۔‘

انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ سال 2015 کے ماڈل میں، دیگر مینوفیکچررز کے ماڈلز میں 96 فیصد اموبیلائزر معیاری تھے، لیکن ہنڈائی اور کیا ماڈل میں صرف 26 فیصد معیاری تھے۔ کار بنانے والوں نے کچھ ماڈلز پر اموبیلائزرز نہ لگانے کے اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں کی ہے۔

ویڈیوز میں چوروں کو ہنڈائی اور کیا گاڑیوں کے اگنیشن کور اتارتے، انہیں سٹارٹ کرتے اور لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ملواکی جرنل سینٹینل اخبار کے مطابق گذشتہ سال ملواکی میں چوری ہونے والی دس ہزار 476 گاڑیوں میں سے 66 فیصد ہنڈائی یا کیا کی تھیں۔

ملواکی پولیس نے جمعرات کو بتایا کہ اس سال اب تک شہر میں چوری کی وارداتوں میں کمی آئی ہے۔ 12 ستمبر تک چھ ہزار48 گاڑیاں چرائی گئیں لیکن ان میں سے 58 فیصد ہنڈائی یا کیا کی تھیں۔

جریدے سینٹینل کی رپورٹ کے مطابق کیا کی چوری کے بارے میں وائرل ویڈیو کے بعد چوری کے شبہ میں ایک 17 سالہ نوجوان کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب پولیس نے اس ویڈیو اور ایک نامعلوم مخبر کی ٹپ سے اس کا سراغ لگایا۔ انہیں 22 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

ہنڈائی اور کیا دونوں نے اپنے بیانات میں اعتراف کیا کہ چور ان کی کچھ گاڑیاں چرا رہے ہیں اور کہا کہ وہ وفاقی حفاظتی معیارات پر پورا اترتی ہیں۔

کیا کا کہنا تھا: ’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جرائم پیشہ افراد سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ایک مربوط انداز میں ان گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جن میں انجن اموبیلائزرز نہیں ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سال 2022 کی تمام کیا گاڑیوں میں اموبیلائزر لگائے گئے خواہ وہ شروع میں بنی ہوں یا سال کے دوران۔

ہنڈائی کا کہنا ہے کہ یکم نومبر 2021 کے بعد تیار کیے جانے والے تمام ماڈلز میں معیاری آلات کے طور پر اموبیلائزرز موجود ہیں۔

کیا کا کہنا ہے کہ وہ چوری کی روک تھام کے لیے متاثرہ علاقوں میں حکام کو بغیر کسی قیمت کے سٹیئرنگ وہیل لاک فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

ہنڈائی کا کہنا ہے کہ وہ بھی پولیس کو لاک فراہم کر رہی ہے اور اکتوبر میں وہ ایک ایسی سکیورٹی کٹ فروخت کرنا شروع کر دے گی، جو چوری کے طریقوں کا توڑ ہوگی۔

انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر نائب صدر میٹ مور نے کہا کہ ہنـڈائی اور کیا کا شمار 20 سب سے زیادہ چوری ہونے والی گاڑیوں میں ہوتا ہے، یہ فرق عام طور پر زیادہ طاقت والی یا مہنگی گاڑیوں، یا پک اپ ٹرکوں کے لیے مخصوص ہے۔

چوری کے خطرے سے دوچار زیادہ تر ہنڈائی اور کیا گاڑیاں اکثر کم آمدنی والے لوگ خریدتے ہیں۔ میٹ مور نے کہا کہ ’ان نئی گاڑیوں کی قیمت خرید نسبتاً کم ہوتی ہے۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کچھ ماڈلز کے مالکان نے پیسے بچانے کے لیے انشورنس نہ کروائی ہو اور ممکن ہے انہوں نے خود ہی کاروں کو تبدیل کیا ہو۔

نیشنل انشورنس کرائم بیورو کا کہنا ہے کہ چوری سے بچنے کے لیے مالکان کو چاہیے کہ وہ گاڑیوں کے شیشے بند رکھیں، دروازے لاک کریں اور چابی کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ انہیں چاہیے کہ ایسی جگہ یا گیراج میں گاڑی پارک کریں جہاں روشنی زیادہ ہو۔ اگر گاڑی باہر پارک کرنی پڑے تو مالکان کو موشن سینسر لائٹس انسٹال کرنے پر غور کرنا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی