تیر اندازی تیز نظر کا کھیل ہے، مگر بینائی سے محروم افراد بھی تیر اندازی کر سکتے ہیں اور اس بات کو بصارت سے محروم دو پاکستانی بھائیوں نے ثابت کر دکھایا ہے۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے تنویر احمد اور ولید عزیز بصارت سے محروم ہیں، لیکن ان کی مہارت ایسی ہے کہ ان سے کوئی نشانہ خطا نہیں ہوتا۔
خاص طور پر تنویر احمد تو ایشیا کے پہلے بصارت سے محروم گولڈ میڈلسٹ تیر انداز ہونے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔
تنویر کے مطابق: ’تیر اندازی کے انٹرنیشنل مقابلوں میں تاریخ میں پہلی مرتبہ انہوں نے گولڈ میڈل جیت کر پاکستان کے لیے یہ اعزاز حاصل کیا۔‘
تنویر احمد کے مطابق اب تک وہ تین بین الاقوامی ایونٹ کھیل چکے ہیں۔ پہلا ایونٹ دبئی میں ہوا جس میں تقریباً 14 تیر اندازوں نے حصہ لیا تھا اور اس میں انہوں نے دوسری پوزیشن حاصل کرکے سلور میڈل اپنے نام کیا تھا۔
بصارت سے محروم افراد تیر اندازی کیسے کر پاتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں تنویر احمد کا کہنا تھا: ’یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں عام لوگ بہت مشکل سے آتے ہیں اور اس کو کھیلنا، اس کا تمام تر کریڈٹ ہمارے کوچ کو جاتا ہے جنہوں نے ہمیں یہ کھیل سیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ اس کھیل کو ہم نے 2017 میں شروع کیا اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئی ایونٹس میں حصہ لیا اور کامیابی کے ساتھ ایونٹس جیت لیے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’مجھے پاکستان کا نمبر ون کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں لیکن ہمت اور جذبہ ہے، جو ہمیں آگے لے کر گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تنویر نے بتایا: ’ہمارے کوچ نے اس سے پہلے 12 سے زائد نابینا خواتین کو بھی تربیت دی ہے۔ تب سے مجھے بھی اس کھیل کا شوق پیدا ہوگیا اور میں بھی اسی مشکل کھیل میں آگیا اور آج میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ میں بھی پاکستان کا نمبر ون کھلاڑی بن گیا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بینائی سے محروم افراد کے لیے ویسے بھی کھیلوں میں مواقع بہت کم ہیں، اس لیے یہ کھیل ان کے لیے بہت فائدہ مند ہے اور وہ اپنے ساتھ بصارت سے محروم دیگر افراد کو بھی تربیت دے رہے ہیں۔
تیراندازی کی ٹریننگ پر آنے والے خرچے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کے لے اچھے معیار کا سامان ہونا ضروری ہوتا ہے، جس کی قیمت تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے اور ٹریننگ کے لیے یہ سامان لینا پڑتا ہے۔
تنویر احمد نے خواہش ظاہر کی کہ وہ انفرادی طور بھی پاکستان کے لیے سونے کا تمغہ جیتیں، جس کے لیے وہ بھر پور محنت کر رہے ہیں۔