رواں ہفتے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پاکستان سپورٹس بورڈ (پی ایس بی) کے دفتر کے سامنے سڑک پر تیر کمان رکھے ایک خاتون، کچھ بچے اور نوجوان سراپا احتجاج نظر آئے۔
انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے نام بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر درج تھا کہ جب وزیراعظم خود کھلاڑی رہ چکے ہیں تو ان کے دور حکومت میں کھلاڑیوں پر اتنا ظلم کیوں ہو رہا ہے؟
ایک اور بینر پر سوال تھا کہ تیراندازی میں صوبائی اور قومی سطح کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کو کھیلنے سے کیوں روکا جارہا ہے؟
پشاور میں 23 اگست کو اس احتجاج کی قیادت کرنے والی سارہ خان نے کچھ سال قبل راولپنڈی میں فوج کے زیر تربیت تیراندازی (آرچری) کے شعبے میں قدم رکھا۔
سارہ کو نہ صرف بہترین تیرانداز کے طور پر کئی انعامات و اسناد سے نوازا گیا بلکہ انہیں وہیں سے اس میدان میں آگے بڑھنے کی پیشکش بھی ہوئی۔
تاہم یہی وہ وقت تھا جب انہیں احساس ہوا کہ خیبر پختونخوا کو ان کی زیادہ ضرورت ہے، لہذا وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپس پشاور منتقل ہوئیں۔
سارہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ 2017 کی بات ہے۔ اس وقت تیراندازی کا کھیل صرف دستاویز میں موجود تھا جبکہ حقیقت میں یہ گیم تاحال کسی گراؤنڈ میں نہیں سکھایا جاتا۔
’قومی وصوبائی کھیل کے مقابلوں کے دوران عارضی طور پر کسی تیرانداز کی خدمات تو حاصل کی جاتی ہیں لیکن گیمز کے اختتام کے بعد کوئی انتظام موجود نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ حالیہ وقتوں میں ترکش ڈرامے ’ارطغرل‘ کے منظر عام پر آنے کے بعد تیراندازی سیکھنے والوں میں بہت اضافہ ہوا ہے اور ہر عمر کے لوگ تیراندازی سیکھنے کے لیے سپورٹس کمپلیکس کا رخ کررہے ہیں۔
سارہ خان نے بتایا کہ 2017 میں جب وہ پشاور آئیں تو انہوں نے جی ایچ کیو، مقامی ایسوسی ایشنز و فیڈریشنز اور پی ایس بی کے اس وقت کے ڈائریکٹر ممتاز ندیم سے اجازت نامے حاصل کرکے پشاور کے قیوم سٹیڈیم میں تیراندازی کلب کا آغاز کیا تاکہ صوبے میں موجود تیراندازی کا شوق رکھنے والے نوجوانوں کو جو سہولت حکومت کی جانب سے میسر نہیں، اس کے لیے وہ خود اقدامات اٹھا کر صوبے کا نام قومی و بین الاقوامی سطح پر روشن کریں۔
’تیراندازی کے لیے مجھے جو گراؤنڈ ملا وہ پی ایس بی کے زیر انتظام تھا۔ میرے پاس تقریباً 40 کے قریب بچے اور نوجوان رجسٹر ہوئے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق غریب اور مزدور طبقے سے ہے۔‘
سارہ نے، جو کہ پشاور کے ایک تعلیمی ادارے میں سپورٹس ٹیچر ہیں، بتایا کہ وہ بچوں سے فیس نہیں لیتی تھیں اور تیراندازی سکھانے کے لیے انہیں ایک چھوٹے گراؤنڈ کا ایک کونہ ہی دستیاب تھا، مگر اس کے باوجود بھی بچے اور نوجوان موسم کی پرواہ کیے بغیر کھیل جاری رکھے ہوئے تھے، تاہم اچانک موجودہ پی ایس بی ڈائریکٹر کی جانب سے پابندی عائد ہوئی۔
’موجودہ ڈائریکٹر کبھی ہمارے کھیل کی جگہ پر فاؤنٹین بنانے کا کہتے ہیں تو کبھی تیراندازی سیکھنے والوں سے فیس لینے اور اسے پی ایس بی کے پاس جمع کرنے کا حکم دیتے ہیں، لیکن اب انہوں نے مکمل پابندی لگا دی ہے۔‘
جب اس حوالے سے پی ایس بی کوچنگ و تربیتی سینٹر کےموجودہ ڈائریکٹر پرویز احمد سے انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو انہوں نے کھلاڑیوں سے فیس لینے کے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ تیراندازی کی کوچ سارہ خان ایک نجی کلب سرکاری عمارت میں چلا رہی ہیں، اسی لیے ڈی جی پی ایس بی کی احکامات پر انہوں نے خاتون کو قیوم سٹیڈیم پشاور میں مزید کوچنگ سے منع کیا۔
ان کا کہنا تھا: ’پہلے جن ڈائریکٹرز نے اجازت دی تھی وہ غلط اور غیر قانونی تھا۔ جہاں تیراندازی سکھائی جارہی ہے وہ سٹیڈیم کے اندر ہاسٹل کا گراؤنڈ ہے جہاں قیام کرنے والے کھلاڑی فارغ وقت میں سستاتے ہیں۔
’ہم ایک غیر قانونی کھیل کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ اس میں بچوں کے تحفظ اور سکیورٹی کا معاملہ بھی آجاتا ہے۔‘
ڈائریکٹر پی ایس بی پرویز احمد نے اس بات کی تائید کی کہ پشاور کے مصروف میدان قیوم سٹیڈیم میں تیراندازی سکھانے کے لیے نہ تو کوئی گراؤنڈ ہے اور نہ مستقل بنیاد پر کوئی کوچ موجود ہے۔
متاثرہ خاتون کے مطالبات
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیراندازی کی کوچ سارہ خان نے بتایا کہ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ پشاور میں سب سے پہلے تیراندازی کے کلب کی ابتدا انہوں نے کی اور صوبے کے لیے بغیر سرکاری امداد کے اچھے کھلاڑی پیدا کیے۔
انہوں نے صوبائی و وفاقی حکومت، پی ایس بی ہیڈکوارٹر اور ایسوسی ایشنز سے استدعا کی کہ ان کی اور کھلاڑیوں کی ذہنی اذیت کو ختم کرکے انہیں سپورٹس کمپلیکس میں مشکلات سے آزاد ایک پرامن ماحول دیا جائے، جہاں وہ صبح وشام بغیر کسی رکاوٹ کے کھیل اور تربیت جاری رکھ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ دیگر کھیلوں کی طرح تیر اندازی کے لیے ایک الگ میدان مختص کیا جائے تاکہ انہیں رکاوٹوں اور پابندیوں کا سامنا نہ ہو اور نئے آنے والے کھلاڑیوں کو بھی موقع ملے۔
سارہ نے کہا: ’ہمیں اپنا قیمتی سامان رکھنے کے لیے ایک کمرہ دیاجائے۔ نشینل گیمز اور دیگر مقابلوں کے دوران تربیت پر توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے کھلاڑیوں کو مختلف مسائل کی وجہ سے میسر نہیں ہے۔‘