میں نے اب تک پاکستان کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی پنجابی فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ نہیں دیکھی، لیکن میرا سات سال کا بیٹا کچھ روز سے فرمائش کر رہا ہے کہ سنیما جا کر یہ فلم دیکھنی ہے۔
میں نے بچے کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کہ مولا جٹ بچوں کے دیکھنے کی فلم نہیں ہے، کیونکہ اس میں شور بہت زیادہ ہے۔
مگر بچے نے جواب میں کہا کہ اس کے بہت سے ہم جماعت اپنے والدین کے ہمراہ سنیما میں یہ فلم دیکھ چکے ہیں، اس لیے اب اسے بھی یہ فلم دیکھنی ہے۔
مجھے دوست احباب سے معلوم ہوا کہ مولا جٹ میں بہت شور اور تشدد کے مناظر ہیں، اور اسے ریٹنگ بھی ’پی جی‘ ملی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی کچھ ایسی پوسٹس نظر سے گزریں جن میں بچوں کو سنیما میں مولا جٹ کے پوسٹر کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
میں نے فیس بک کے مختلف گروپس میں یہ سوال اٹھایا کہ کیا مولا جٹ، جس میں تشدد اور خون خرابہ دکھایا گیا ہے، کم عمر بچوں کو دیکھنا چاہیے؟
اس کے جواب میں صارف زنیرہ طارق نے لکھا: ’آج کل بچے خبروں اور نیٹ فلکس پر چلنے والے کارٹونز میں اتنا تشدد دیکھ رہے ہیں کہ مولا جٹ دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
ارشا شجاع کا خیال تھا: ’بچے کیا، بڑوں کو بھی اتنی پر تشدد فلم نہیں دیکھنا چاہیے۔‘
ایک دوسری صارف صائقہ نے لکھا کہ ’ان کی ساڑھے پانچ سالہ بیٹی کو مولا جٹ ڈراونی لگی‘، جبکہ ایک صارف نے اپنے پانچ اور تین سال کے بچوں کے ساتھ مولا جٹ دیکھنے کا اقرار کیا۔
علیزے بٹ نے لکھا: ’یہ فلم بالغوں کے لیے ہے، یا 16 سال سے بڑے بچوں کو دکھائی جاسکتی ہے، اس سے چھوٹے بچوں کو تو بالکل بھی نہیں۔‘
ایک دوسرے صارف نے لکھا: ’بھئی دیکھا دو بچوں کو، اب والدین بچوں کو کس کے پاس چھوڑ کر فلم دیکھنے سنیما جائیں گے؟‘
سوشل میڈیا پر ملنے والے جوابات نے میرے بیٹے کی بات کو تو درست ثابت کیا، لیکن ذہن الجھا ہوا تھا کہ کیا ہمارے ہاں کوئی قانون یا اصول ہے کہ ایک ایسی فلم جس میں تشدد ہے اور جسے ’پی جی‘ کی ریٹنگ ملی ہو بچوں کو نہ دکھائی جائے؟
پاکستان میں فلموں کی جانچ
سنٹرل بورڈ آف فلم سنسر (سی بی ایف سی) حکومت پاکستان کی وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت فلم سنسرشپ بورڈ اور درجہ بندی کا نظام ہے۔ پاکستانی آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد اس کا دائرہ اختیار اسلام آباد، راولپنڈی، خیبرپختونخوا اور بلوچستان تک محدود ہے، جبکہ پنجاب اور سندھ کے باالترتیب پنجاب فلم سنسر بورڈ (پی ایف سی بی) اور سندھ بورڈ آف فلم سنسر (ایس بی ایف سی) ہیں۔
موشن پکچرز آرڈیننس 1979 کے تحت فلموں کی عوامی نمائش کو منظم کرنے کا کام ان بورڈز کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
فلموں کی ریٹنگ
قانون کے مطابق سی بی ایف سی کسی مخصوص فلم کی جانچ کے بعد فیصلہ کرتا ہے کہ فلم غیر محدود عوامی نمائش، خاندانی نمائش، والدین کی رہنمائی کے تحت عوامی نمائش، کچھ حصے کاٹنے کے بعد عوامی نمائش یا 18 سال اور اس سے اوپر کی عمر کے افراد یا عوامی نمائش کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔
اسی قانون کے مطابق فلموں کے لیے ان کی نمائش کے حساب سے مندرجہ سرٹیفیکیٹ دیے جاتے ہیں۔
1۔ یونیورسل سرٹیفیکیٹ (U): غیر محدود عوامی نمائش کے لیے موزوں فلم،
2۔ فیملی سرٹیفیکیٹ (F): اہل خانہ یا خاندان کے افراد کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جانے کے قابل فلم،
3۔ والدین کی رہنمائی (Parental Guidance یا PG) سرٹیفیکیٹ: جس فلم کو والدین کی رہنمائی میں دیکھنے کی ہدایت کی جائے، اور
4۔ بالغوں کا سرٹیفیکیٹ (A): فلم 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کے دیکھنے کے لیے موضوع قرار دی جاتی ہے۔
ریٹنگ کے مزید اصول
سندھ سنسر بورڈ کے رکن عمر خطاب کا انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پی جی ریٹنگ کی سب کیٹیگریز بھی موجود ہیں، جن میں پی جی 13، پی جی 15 اور پی جی 16 شامل ہیں۔
’مولا جٹ ایک پی جی 13 فلم ہے، جسے 13 سال یا اس سے زیادہ عمر کے بچے والدین کی رہنمائی میں دیکھ سکتے ہیں، اور ایسی فلم دیکھنے کے لیے بچوں کو سنیما گھر لانے کی اجازت نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ریٹنگ اے فلموں کی صورت میں 18 سال سے کم عمر کے افراد سندھ میں کہیں بھی سنیما میں داخل نہیں ہو سکتے۔
پنجاب سینسر بورڈ کے فلم انسپکٹر محمد حسیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فلم میں ڈراونے مناظر کی موجودگی کی صورت میں، جو بچے نہیں دیکھ سکتے، ’پی جی‘ یا ’اے‘ ریٹنگ، جبکہ تشدد کی موجودگی پر بھی ’پی جی‘ ریٹنگ دی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جن فلموں کا تھیم بالغ افراد کے لیے ہوتا ہے، جیسے ’جوائے لینڈ‘، تو انہیں بھی ’اے‘ ریٹنگ دی جاتی ہے۔
مولاجٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس فلم کی ریٹنگ ’پی جی‘ ہے اور اسے 13 سال سے کم عمر کے بچے بھی والدین کی رہنمائی میں دیکھ سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پی جی‘ فلم میں بچے والدین کے ساتھ اس لیے فلم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی ڈراؤنا سین آتا ہے تو بچے نہ ڈریں۔ ’کئی فلموں کو وفاقی سطح پر تو سرٹیفیکیٹ مل جاتا ہے، لیکن پنجاب میں ایسا نہیں ہو پاتا، جبکہ اس کے الٹ بھی ہوتا ہے۔‘
بورڈز کا طریقہ کار
فلموں کو جانچنے کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے سندھ سنسر بورڈ کے رکن عمر خطاب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے 14 اراکین پر مشتمل بورڈ (دس نجی شعبہ جات اور چھ سرکاری افسران) فلم دیکھ کر اپنی رائے دیتے ہیں، اور طویل بحث مباحثے کے بعد فلم کو سرٹفیکیٹ دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
پنجاب سینسر بورڈ کے فلم انسپکٹر محمد حسیب نے بتایا کہ پنجاب میں کم سے کم پانچ اور زیادہ سے زیادہ 10 بورڈ ممبر فلم کو ریٹنگ دینے کی غرض سے دیکھتے ہیں، اور کسی فلم کو سرٹیفیکیٹ دینا یا انکار کرنا بورڈ کا استحقاق ہے۔
سرٹیفیکیٹ نہ دینے کی ممکنہ وجوہات
بورڈ کسی فلم میں اسلام یا کسی مذہبی فرقے، ذات اور عقیدے کی تضحیک، تذلیل یا حملہ، پاکستان کی سالمیت، سلامتی یا دفاع پر سوالیہ نشان، یا قومی جذبات کو ٹھیس پہنچانے، امن عامہ، شائستگی یا اخلاقیات کو مجروح کرنے مواد یا بے ہودہ مکالموں، گانوں، اشارات، برائی یا جرم کی تعریف کی موجودگی پر سرٹیفیکیٹ دینے سے انکار کر سکتا ہے۔
ریٹنگ پر عمل کیسے ہوتا ہے؟
عمر خطاب کا کہنا تھا کہ یہ سنیما گھروں کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور ان کے خلاف اور شکایت کی صورت میں کسی مخصوص تھیٹر بند بھی کیا جا سکتا ہے۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ مولا جٹ کے حوالے سے بورڈ کو ابھی تک ایسی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
سنیما کے خلاف کاروائی کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سنیما کو بند (سِیل) کرنے کا اختیار ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس ہے، جس پر بورڈ کی شکایت کی سورت میں عمل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عام طور پر ضلعی انتظامیہ پہلی شکایت پر کاروائی نہیں کرتی بلکہ ایسا چار پانچ کمپلینٹس موصول ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ مولا جٹ جیسی فلم بچوں کو دکھانے انحصار والدین کی مرضی پر ہے، کیونکہ سنیما کی انتظامیہ صرف اتنا یقینی بنائے گی کہ بچے کے لیے ٹکٹ خریدنے والے اس کے والدین ہی ہو۔
مولا جٹ کے لیے ریٹنگ پر عمل ہو رہا ہے؟
یہ جاننے کے لیے کہ لاہور کے سنیما گھروں میں کتنی عمر کے بچوں کو مولا جٹ دیکھنے کی اجازت دی جا رہی ہے، معروف کیو سنیما کی انتظامیہ سے ٹیلیفون کے ذریعے رابطہ کیا۔
ٹیلیفون اٹھانے والے شخص نے بچوں کو فلم دیکھنے کی اجازت سے متعلق سوال کے جواب دیا: ’تین سال سے بڑے بچوں کی ٹکٹ ہو گی۔‘
فلم کی ریٹنگ ’پی جی‘ ہونے کی طرف ان کی توجہ مبذول کروائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ فلم دیکھنے کسی بھی عمر کے بچے آسکتے ہیں۔
فلم نقاد اقبال خورشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’مولا جٹ کے ڈائریکٹر بلال لاشاری نے فلم کے آنے سے قبل بتا دیا تھا کہ یہ بچوں کے لیے نہیں ہے۔
’میں نے خود مولا جٹ دو مرتبہ سنیما میں دیکھی اور وہاں بچے موجود تھے، جبکہ دوسری کئی 16 اور 13 ریٹنگ والی فلمیں بھی بچے دیکھنے آتے ہیں۔‘
انہوں نے اس غیر قانونیت کی وجہ بتلاتے ہوئے کہا کہ سنیما گھر میں 10 ٹکٹوں کے خریدار سے بچوں کی موجودگی سے متعلق دریافت نہیں کیا جائے گا۔
اقبال خورشید کا کہنا تھا کہ ٹکٹ کی فروخت کے وقت فلم دیکنے کی غرض سے آنے والوں کی عمروں سے متعلق دریادفت کرنا سنیما گھروں کی انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
’اوروفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اس قانون پر پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔‘
(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان)