باغبان پورہ کے قریب فتح گڑھ کی تنگ اور ٹوٹی پھوٹی گلیوں سے گزر کر محکمہ صحت کی ایک ڈسپنسری آتی ہے۔ یہ ہے 25 سالہ شزا الیاس کا دفتر، جو لاہور شہر کی یو سی 44 میں حکومتی ویکسنیشن مہم سے جڑے آٹھ ایریا انچارجز میں سے واحد خاتون ہیں۔ وہ گھر گھر ویکسینیشن میں بھی حصہ لیتی ہیں اور وہ بھی موٹرسائیکل پر۔
شزا الیاس لاہور کے علاقہ داروغہ والا میں رہتی ہیں۔ وہ میٹرک میں تھیں جب ان کے والد چل بسے۔ انہوں نے گریجویشن تک تعلیم مکمل کی اور پھر اپنی بوڑھی ماں، دو بہنوں اور ایک چھوٹے بھائی کی ذمہ داری اٹھا لی۔ محکمہ صحت میں آسامی نکلی تو انہوں نے درخواست دے دی اور انہیں ایل ایس پی سکیل ون کی نوکری مل گئی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’ڈور ٹو ڈور ورکنگ کرنا، ویکسین مہیا کرنا، پولیو کے قطرے پلانا، حفاظتی ٹیکوں کا بتانا، یہ سارے کام فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں تو اس کے لیے چل کر سفر کرنا بڑا مشکل تھا۔ اس کی وجہ سے میرے نا نا نے میری ہمت بندھائی اور مجھے موٹر سائیکل لے دی اور چلانی بھی سکھائی جس کے بعد محکمہ صحت نے مجھے ایریا انچارج بنا دیا۔ میرے زیر نگرانی پانچ ٹیمیں اور ان کے ورکر کام کر رہے ہیں۔ میں نے ان کا چیک اینڈ بیلینس رکھنا ان کے پاس جا کر ان کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اس سب کے لیے میں اب موٹر سائیکل پر ہی سفر کرتی ہوں۔‘
اپنے دفتر میں بیٹھے انہوں نے بتایا: ’یہاں سینٹر میں آتی ہوں ویکسین، ٹیموں کو مہیا کرتی ہوں، ان کو فیلڈ میں بھیجتی ہوں اور پھر اس کے بعد میں بائیک پر ہی ان کے پیچھے جاتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ وہ کام ٹھیک کر رہے ہیں یا نہیں۔‘
ان کے مطابق، موٹر سائیکل چلانے کی وجہ سے نوکری میں ہی نہیں بلکہ ان کے گھر والوں کو بھی بہت فائدہ ہوا ہے۔ ’میری والدہ جو بوڑھی ہیں پہلے بس یا رکشے میں سفر کرتی تھیں جس میں پیسے بھی لگتے تھے اور تھکاوٹ الگ ہوتی تھی۔ اب میں انہیں موٹر سائیکل پر بٹھا کر آسانی سے کہیں بھی لے جاتی ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موٹر سائیکل چلانا شزا کے لیے آسان نہیں تھا. پہلے پہل ان کے ایک دو حادثے بھی ہوئے لیکن زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ موٹر سائیکل چلاتے وقت ایک بڑا مسئلہ انہیں ہراسانی کا ہے۔ ’کیونکہ میں برقع پہن کر بائیک چلاتی ہوں تو لوگ آوازیں کستے ہیں، گھورتے ہیں، ماشاء اللہ کہہ کر چلے جاتے ہیں۔ میں تھوڑی صحت مند ہوں تو کچھ کہہ جائیں گے کہ دیکھو آنٹی بائیک چلا رہی ہیں۔ کچھ کہتے ہیں دیکھو شوقیہ چلا رہی ہے اور عزت کا خیال نہیں۔ یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ اگر ایک خاتون اپنے گھر کی مجبوریوں کی وجہ سے موٹر سائیکل چلا رہی ہے تو لوگوں کے رویوں کی وجہ سے وہ دل برداشتہ ہو جاتی ہے۔‘
شزا کہتی ہیں کہ شروع میں جب کوئی بات کر کے چلا جاتا تھا تو انہیں اچھا نہیں لگتا تھا لیکن اب عادت ہوگئی ہے۔ ’مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ میں اپنے دھیان میں چلتی جاتی ہوں۔
شزا کبھی کبھار ورکرز پر نظر رکھنے کے علاوہ بچوں کو قطرے پلانے کا کام بھی کر لیتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے اکثر ویکسین کی کولڈ چین کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ’ویسے تو ویکسین کیرئیر میں برف کے دو بیگ ہوتے ہیں لیکن اگر ہمیں شک ہوجائے کہ وہ پگھل رہے ہیں تو ہم بازار سے برف خرید کر پلاسٹک کے لفافوں میں ڈال کر اسے اپنے کیرئیر باکس میں رکھتے ہیں۔ اس طرح ہماری کولڈ چین برقرار رہتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پولیو کے قطرے پلانے سے اکثر لوگ منع کرتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے تحفظات ہیں۔ ’کبھی وہ کہتے ہیں کہ ویکسین ٹھیک نہیں کبھی کہتے ہیں میڈیا پر معلوم ہوا کہ قطرے پینے سے بچوں کی جان چلی گئی تو ایسے میں انہیں سمجھانا پڑتا ہے جو مشکل کام ہے۔ اکثر ہمیں گالیاں بھی سننی پڑتی ہیں اور کبھی کبھار لوگ ہم پر حملہ بھی کر دیتے ہیں مگر اس سے ہمارے حوصلے نہیں ٹوٹتے۔‘
البتہ شزا کہتی ہیں کہ اس سب محنت کا معاوضہ بہت ہی کم ہے۔ مہم کے دوران ورکر کو پانچ دن کے صرف 2300 روپے ملتے ہیں یعنی پانچ سو روپے چار دن کے اور تین سو روپے ٹریننگ کے دن کے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’اتنی گرمی میں گھر گھر جا کر اتنی محنت کرنا، لوگوں کی باتیں سننا، دھوپ میں انتظار کرنا کہ کب یہ گھر والے دروازہ کھولیں گے اور سب سے بڑھ کر اپنی جان خطرے میں ڈالنا، اس سب کے 2300 روپے بالکل کافی نہیں۔‘
شزا کہتی ہیں کہ انسان، خاص طور پر خواتین میں، معاشرے کا سامنہ کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ ’معاشرے سے ڈرنا نہیں ہے اگر آپ نے اپنا گھر چلانا ہے، اپنے خاندان کو مالی تحفظ دینا ہے تو ایک ایسا راستہ اپنائیں جو آپ کو بہتر لگے۔ معاشرہ آج بات کر رہا ہے کل بات کرے گا اس کے بعد معاشرہ سمجھ جائے گا کہ یہ کس لیے کام کر رہی ہیں۔ آپ جب اچھی امید سے باہر نکلیں گی تو اللہ بھی آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ کے راستے خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔‘