دی کشمیر فائلز کو ’بیہودہ پروپیگنڈا‘ قرار دینے کے بعد تنازع

دا کشمیر فائلز 90 کی دہائی میں کشمیر سے ہندو پنڈتوں کے انخلا کی فرضی داستان بیان کرتی ہے۔ ریلیز کے بعد سے یہ فلم متنازع ہی رہی کہ اب انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا کے جیوری سربراہ نے اسے ’بیہودہ پروپیگنڈا فلم‘ قرار دے دیا۔

سات اپریل 2022 کو لی گئی اس تصویر میں نئی دہلی کے ایک سینما ہال کے باہر بالی وڈ فلم دی کشمیر فائلز کے پوسٹر کا ڈسپلے (اے ایف پی)

انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا (آئی ایف ایف آئی) کی جیوری کے اسرائیلی سربراہ کی جانب سے متنازع انڈین فلم ’دا کشمیر فائلز‘ کو ’بیہودہ پروپیگنڈا فلم‘ قرار دینے کے بعد انڈیا کی ہندو قوم پرست حکومت کی حمایت یافتہ فلم نے ایک بار پھر تنازع کھڑا کر دیا ہے۔

کشمیر کا ہمالیائی خطہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں سے تنازع کا محور چلا آ رہا ہے۔ دونوں ملک خطے کی ملکیت کے دعویدار ہیں لیکن خطے کا صرف ایک ایک حصہ ان کے زیرانتظام ہے۔

دا کشمیر فائلز جو 90 کی دہائی میں مسلم اکثریتی علاقے کشمیر سے ہندو پنڈتوں کے انخلا کی فرضی داستان بیان کرتی ہے اس سال مارچ میں ریلیز ہونے کے بعد سے متنازع ہو چکی ہے۔

اسرائیلی فلم ساز نداولاپید نے پیر کو فلم کو اس کے مواد کی وجہ سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب (آئی ایف ایف آئی جیوری) کو وہ فلم دیکھ کر پریشانی ہوئی اور دھچکا لگا‘ جس کی نمائش ساحلی سیاحتی ریاست گوا میں ہر سال ہونے والے فیسٹیول میں کی گئی۔

لاپید نے فلمی میلے کی اختتامی تقریب میں سامعین میں حکومتی وزرا کی موجودگی میں کہا کہ ’ہمیں فلم دا کشمیر فائلز سے پریشانی ہوئی اور دھچکا لگا۔ ہمیں یہ فلم بیہودہ پروپیگنڈا محسوس ہوئی جو ایسے معتبر فلم فیسٹیول میں شامل فنی مقابلے کے لیے موزوں نہیں تھی۔

’میں سٹیج پر آپ کے ساتھ ان احساسات کو کھلے عام شیئر کرتے ہوئے مکمل اطمینان محسوس کر رہا ہوں۔ فیسٹیول کی روح کے اعتبار سے تنقیدی بحث یقینی طور پر قبول کی جا سکتی ہے جو فن اور زندگی کے لیے ضروری ہے۔‘

دا کشمیر فائلز جس میں بولی وڈ اداکاروں انوپم کھیر، متھن چکرورتی، پونیت اسر، امان اقبال اور پلوی جوشی نے کام کیا ہے، اس میں دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر 1990 کی دہائی کے اوائل میں کشمیر سے ان ہزاروں لوگوں کا انخلا دکھایا گیا ہے جن میں زیادہ تر ہندو تھے۔ متعدد پنڈت، جو کشمیری برہمن ہیں، اکثر کہتے ہیں کہ ان کی تاریخ پر اچھے طریقے سے روشنی نہیں ڈالی گئی۔

انڈیا کے وزیر اعظم نریندرمودی نے اپنی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے متعدد قانون سازوں کے ساتھ مل کر اس فلم کو  پروموٹ کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بہت سی ریاستوں میں ٹیکس میں چھوٹ اور حکومتی حمایت کی بدولت ہندی زبان کی اس فلم نے باکس آفس پر بڑی کامیابی حاصل کی۔

ناقدین نے وفاقی حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے انڈیا میں ہندوؤں پر جبر کے تاثر پر مبنی دائیں بازو کے پروپیگنڈا بیانیوں کو فروغ دینے لیے اس فلم کو استعمال کیا۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد ملک میں مسلمانوں پر تشدد میں اس وقت اضافہ ہوا جب اقلیتی برادریاں پہلے سے ہی جبر کا شکار ہیں۔

فلم کے ہدایت کار وویک رنجن اگنی ہوتری نے لاپید کی تنقید پر اپنے ردعمل میں ڈھکے چھپے انداز میں ٹویٹ کی ہے کہ ’سچ سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ یہ لوگوں سے جھوٹ بلوا سکتا ہے۔‘

دا کشمیر فائلز میں مرکزی کردار ادا کرنے والے انوپم کھیر نے کہا کہ فلم پر پہلے سے منصوبہ بندی کر کے تنقید کی گئی اور یہ شرمناک بات ہے۔ انہوں نے جیوری کے سربراہ پر الزام لگایا کہ انہیں کشمیری پنڈتوں کی تکالیف کا احساس نہیں۔

جیوری کے رکن سدپتوسین کا کہنا تھا ’جیوری کے رکن کے طور پر ہماری ذمہ داری فلم کے تکنیکی اور جمالیاتی معیار اور اس کے سماجی و ثقافتی تعلق کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔‘

’ہم کسی فلم کے بارے میں کسی قسم کی سیاسی رائے نہیں دیتے اور اگر ایسا ہوتا ہے کہ تو یہ مکمل طور ذاتی فعل ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا میں اسرائیل کے سفیر ناؤر گلون نے اپنے بیان میں سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاپید نے ’پینل کی سربراہی کرنے کی  دعوت کا بدترین انداز میں غلط استعمال کیا۔‘ اور ’ان کو شرم آنی چاہیے۔‘

اسرائیلی سفیر نے کہا کہ ’میں کوئی فلمی ماہر نہیں ہوں لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ گہرائی میں جا کر مطالعہ کیے بغیر تاریخی واقعات کے بارے میں بات کرنا غیر حساس اور زبان درازی ہوتا ہے۔ یہ واقعات انڈیا میں کھلے زخم ہیں کیوں کہ ان سے متاثر ہونے والے بہت سے لوگ اب بھی اردگرد موجود ہیں اور اب بھی قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘

گلون کا کہنا تھا کہ بطور انسان انہیں ’شرم آئی‘ اور ’ان کی دوستی اور فراخدلی کا جس برے انداز میں ہم نے جواب دیا‘ میں اس پر میزبان ملک سے معذرت کرنا چاہتا ہوں۔

دا کشمیر فائلز پر کھڑے ہونے والے تنازع کی وجہ سے مئی میں سنگاپور نے اس کی نمائش پر پابندی لگا دی تھی کیوں کہ اس میں ’مسلمانوں کو اشتعال انگیز اور یکطرفہ انداز میں پیش کیا گیا۔‘

سنگاپور نے اعلان کیا کہ مذکورہ فلم اس کے درجہ بندی کے رہنما اصولوں سے ’ماورا‘ ہے۔ سنگاپور حکومت کا کہنا تھا کہ فلم میں کی گئی نمائندگی ’مختلف برادریوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے اور ہمارے کثیر نسلی اور کثیر مذہبی معاشرے میں معاشرتی اور مذہبی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔‘

(ایڈیٹنگ: ج ح ۔ ترجمہ: علی رضا)

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم