نور مقدم قتل کیس میں مجرم کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں میں وکیل عثمان کھوسہ نے موقف اپنایا کہ مجرم ظاہر جعفر کی دماغی حالت کا کبھی معائنہ نہیں کیا گیا۔
بدھ کے روز نور مقدم کیس میں اپیلوں پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کی۔
مقدمے کے مدعی شوکت مقدم اپنے وکیل شاہ خاور کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ جبکہ مرکزی ملزم ذاکر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔
مجرم کے وکیل عثمان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کہتی ہے کہ اگر کسی سٹیج پر بھی پتہ چل جائے تو طبی معائنہ ضروری ہے۔‘
چیف جسٹس نے وکیل عثمان کھوسہ سے استفسار کیا کہ ویسے آپ کو کس نے ہائر کیا ہے؟ اس استفسار پر عثمان کھوسہ نے بتایا کہ ظاہر جعفر کے والد جیل گئے اور وکالت نامے پر دستخط کروائے تھے۔
عدالت نے کہا کہ اگر وہ وکیل ہائر کر سکتے ہیں تو کیسے اس قسم کے اعتراضات اٹھا سکتے ہیں؟
اگر کورٹ نے جیل سے طبی معائنہ کرایا ہے تو اس کے بعد آپ نے کوئی اعتراض اٹھایا؟ مدعی وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ ان کی درخواست ٹرائل کورٹ سے خارج ہوئی لیکن اس کو چیلنج نہیں کیا گیا۔
وکیل عثمان کھوسہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں نو ملزمان بری ہوئے اور تین مجرمان کو سزا ہوئی تھی۔ نو ملزمان کے بری ہونے سے 75 فیصد کیس یہ ثابت نہیں کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ کیا مجرم ظاہر جعفر کو فیئر ٹرائل ملا ہے؟ ’اس حوالے سے عدالت کی معاونت کروں گا۔‘
وکیل عثمان کھوسہ نے کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے ظاہر جعفر کو مقدمے کی دستاویز کی نقول دیں لیکن اس نے دستخط نہیں کیے۔ عدالت نے لکھا جیل سے میڈیکل رپورٹ موصول ہوئی لیکن وہ کیا تھی عدالت نے نہیں لکھا۔‘
عدالت نے مجرم ظاہر جعفر کے وکیل کو میڈیکل بورڈ بنانے کے حوالے سے ظاہر جعفر کی درخواست کا آرڈر پڑھنے کی ہدایت کی۔
وکیل عثمان کھوسہ نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ ہے کہ نہ کوئی میڈیکل بورڈ بنا نہ وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔
’پیپر بکس میں نہ درخواست، نہ رپورٹ نہ کوئی تفصیلی آرڈر ہے۔‘ وکیل نے میڈیکل کے حوالے سے ظاہر جعفر کی درخواست اور تفصیلی آرڈر بھی عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ بارہ میں سے نو ملزمان بری ہونے پر 75 فیصد ہی غلط ثابت ہو گیا۔ مجرم کی کبھی بھی دماغی حالت کا معائنہ نہیں کیا گیا جو کہ ان کا بنیادی حق ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے تفصیلی آرڈر کیا ہوا ہے اس میں وجوہات بھی دی ہوئیں ہیں۔ 13 گواہیاں ہو چکی تھیں چھ گواہ رہتے تھے تو آپ اس کو چیلنج کر سکتے تھے۔
شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ’مجرم کی جانب سے ذہنی معائنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جو خارج ہوگئی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ٹرائل کورٹ نے طے کرنا ہوتا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی یہی ہے۔
عدالت نے مجرم ظاہر جعفر کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’کیا ایف آئی آر میں کچھ دیر تھی؟‘
وکیل عثمان کھوسہ نے جواب دیا کہ ’ایف آئی آر سے پہلے یہ سارے اکٹھے ہو کر آپس میں مشورہ کرتے رہے ہیں، اس کیس میں جو شکوک وشبہات ہیں اس کا فائدہ مجھے دیں۔‘
اس پر مدعی کے وکیل نے فوراً بتایا کہ ’20 جولائی کو رات ساڑھے 11 بجے مقدمہ درج ہوا تھا۔‘
عدالت نے کہا کہ ہر مقدمہ خاص طور پر قتل کے کیسز میں یہ ہوتا ہے کہ جو قتل ہوا وہ تو ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہے کہ جہاں سے ڈیڈ باڈی ملے اس کو پراسیکوشن نے دیکھنا ہوتا ہے۔
اس پر ظاہر جعفر کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کے ثبوت و شواہد میں بہت تضاد ہے۔
’جرح میں یہ آیا ہے مدعی اس کے رشتہ دار پولیس افسران ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے وقوعہ والی جگہ پر موجود تھے۔‘
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ کرمنل لا میں ہر فیصلے کا اپنا پس منظر ہوتا ہے۔
عدالت نے مزید دلائل کے لیے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
واقعے کا پس منظر
20 جولائی 2021 کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ملزم کو موقع سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ جبکہ ملزم ظاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں۔
پولیس نے 24 جولائی کو جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔
24 فروری 2022 کو سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کے بہیمانہ قتل کے مجرم ظاہر جعفر کو جرم ثابت ہونے پر اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے قتل کے جرم میں تعزیرات پاکستان دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنا تھی۔
ظاہر جعفر کے والد زاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کو بری کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
ظاہر جعفر کے والد سمیت نو ملزمان کو عدالتی فیصلے کے بعد اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔
ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے بعد مرکزی مجرم ظاہر جعفر نے سزا کالعدم قرار دینے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جبکہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے بری ہونے والے ملزمان کو سزائیں دینے اور زیر حراست مجرمان کی سزاؤں کو بڑھانے کی اپیل کر رکھی ہے۔