عالمی شدت پسند تنظیم داعش نے ابوالحسن الہاشمی القریشی کی ہلاکت کے بعد ابو الحسین الحسینی القریشی کو تنظیم کا نیا سربراہ نامزد کردیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق داعش کے ترجمان ابوعمر المہاجر کی جانب سے بدھ کو جاری کیے گئے ایک آڈیو بیان میں کہا گیا کہ تنظیم کے سربراہ ابوالحسن الہاشمی القریشی حال ہی میں ایک لڑائی کے دوران مارے گئے، تاہم اس آڈیو میں القریشی کی موت کے متعلق مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
یہ ہلاکت اس گروپ کے لیے ایک دھچکا ہے، جسے 2017 میں عراق اور دو سال بعد شام میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
داعش کے ترجمان ابوعمر المہاجر کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب داعش شام اور عراق کے کچھ حصوں میں مہلک حملے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
المہاجر نے کہا: ’وہ اللہ کے دشمنوں سے لڑتے ہوئے ایک مرد کی موت مارے گئے اور مرنے سے قبل کچھ کو قتل بھی کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ابو الحسین الحسینی القریشی کو گروپ کا نیا رہنما نامزد کیا گیا ہے۔ وہ داعش کے تجربہ کار اور وفادار جنگجوؤں میں سے ایک ہیں۔‘
امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق داعش کا دعویٰ ہے کہ ان سربراہان کا تعلق قریش قبیلے سے ہے اور ’القریشی‘ داعش کے رہنما کے نام کے ایک حصے کے طور پر لکھا جاتا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے داعش سربراہ کی موت پر جاری کیے گئے بیان میں کہا: ’ہم ابھی تک کام کر رہے ہیں۔ ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ داعش کا ایک اور لیڈر اب نہیں رہا۔‘
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ الحسن الہاشمی القریشی کو اکتوبر کے وسط میں ہلاک کیا گیا تھا اور یہ کارروائی شام کے جنوبی صوبے درعا میں شامی باغیوں نے کی تھی۔
اسی طرح برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بھی اکتوبر کے وسط میں اطلاع دی تھی کہ شامی حکومت کے ساتھ مفاہمت کر چکنے والے باغیوں نے صوبہ درعا کے جنوبی گاؤں جاسم میں داعش کے جنگجوؤں کے ایک گروپ کو ہلاک کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آبزرویٹری نے کہا تھا کہ ان میں ایک کمانڈر، جس کی شناخت ایک عراقی شہری کے طور پر ہوئی ہے، لبنانی جنگجو اور دیگر شامل ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ داعش کے جنگجوؤں میں سے ایک نے دھماکہ خیز بیلٹ کو اڑا دیا، جو اس نے جھڑپ کے دوران پہنی ہوئی تھی۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ القریشی کی ہلاکت کے ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے بعد یہ اعلان اب کیوں کیا گیا۔
ابو الحسن الہاشمی القریشی کے بارے میں بہت کم معلومات منظرعام پر موجود ہیں۔ انہوں نے فروری میں شمال مغربی شام میں ایک امریکی چھاپے میں ہلاک ہونے والے ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کی ہلاکت کے بعد اس گروپ کی قیادت سنبھالی تھی۔
اکتوبر 2019 میں ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کے بعد القریشی ہلاک ہونے والے اس گروپ کے تیسرے بڑے رہنما ہیں جبکہ اس سال ہلاک ہونے والے وہ داعش کے دوسرے رہنما ہیں۔
یہ کالعدم شدت پسند گروپ عراق اور شام میں مہلک حملے کرنے والے اپنے سلیپر سیلز کے ساتھ دوبارہ ابھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
افغانستان میں اس تنظیم سے وابستہ افراد نے حالیہ مہینوں میں ہونے والے حملوں کی بھی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کا کہنا ہے کہ داعش خطے کے لیے ابھی بھی خطرہ بنی ہوئی ہے اور ’ہم اور ہمارے شراکت دار داعش کی شکست پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔‘
داعش نے تقریباً ایک دہائی قبل القاعدہ سے علیحدگی اختیار کی تھی اور شمالی اور مشرقی شام کے ساتھ ساتھ شمالی اور مغربی عراق کے بڑے حصے پر بھی قبضہ کرنے کے بعد 2014 میں انتہا پسندوں نے اپنی نام نہاد خلافت کا اعلان کیا تھا۔
اس کے بعد آنے والے برسوں میں، اس کالعدم تنظیم نے دنیا بھر میں حملوں کا دعویٰ کیا، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
اس گروپ نے دنیا کو اپنی بربریت دکھانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور لوگوں کے سر قلم کرنے، انہیں تالابوں میں زندہ ڈبونے اور دھات کے پنجروں میں بند کرنے یا پیٹرول چھڑکنے کے بعد آگ لگانے کی ویڈیوز جاری کیں۔