داعش کے جنگجوؤں کی بیویاں اور بیوہ خواتین جو ان کے آخری ٹھکانے الہول کیمپ سے نکلنے میں کامیاب ہوئیں اب معاشرے میں ماضی کے داغ دھلنے کی منتظر ہیں۔
شامی خاتون نورا الخلیف نے عسکریت پسند تنظیم داعش کے حامی شخص کے ساتھ شادی کی اور پھر الہول کے شامی کیمپ میں اپنا بوریا بستر باندھ لیا جہاں ان کے خاوند ان کے ساتھ نہیں تھے۔ بہت سے لوگ اس کیمپ کو داعش کا بچ رہنے والا آخری ٹھکانہ سمجھتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نورا شمالی شہر رقہ سے باہر واقع اپنے آبائی شہر میں واپس آ چکی ہیں۔ انہیں یہاں آئے تین سال ہو چکے ہیں لیکن وہ اب بھی الہول کیمپ میں قیام کے داغ کو مٹانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
نورا نے بتایا: ’ان کے زیادہ تر ہمسائے انہیں داعش کی حامی کہتے ہیں۔‘ وہ اس وقت رقہ کے قریب اپنے والد کے گھر میں بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔
ان کے بقول: ’میں بس بھولنا چاہتی ہوں لیکن لوگ مجھے واپس دھکیلنے پر اصرار کرتے ہیں اور جب سے میں نے الہول چھوڑا ہے میں نے مالی یا جذباتی طور پر سکون محسوس نہیں کیا۔‘
کردوں کے زیر انتظام شمال مشرقی علاقے میں واقع الہول کیمپ میں اب بھی تقریباً 56 ہزار افراد مقیم ہیں جن میں سے زیادہ تر شامی اور عراقی ہیں۔ ان میں سے کچھ کے داعش کے ساتھ روابط ہیں۔
ان میں سے تقریباً 10 ہزار غیر ملکی ہیں جن میں داعش کے جنگجوؤں کے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔
الہول کے زیادہ تر مکین ایسے لوگ ہیں جو 2019 کے اوائل میں داعش کی خود ساختہ خلافت کے آخری دنوں میں فرار ہو گئے یا ہتھیار ڈال دیے۔ چاہے مرضی سے الہول کے کیمپ میں مقیم ہوں یا مجبوری سے بالآخر انہیں داعش کے حامی شدت پسندوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ کیمپ میں رہنے والے لوگوں میں وہ شہری بھی شامل ہیں جو جہادیوں کے خلاف ہونے والی لڑائیوں کی وجہ سے بے گھر ہوئے۔
یہ سب نورا کے لیے ایک چیلنج ہے جو باغوز سے الہول پہنچیں۔ دریا کے کنارے واقع اس بستی میں امریکی حمایت یافتہ کرد فورسز کے ہاتھوں داعش کی یقینی شکست کا اعلان کیا گیا۔
نورا کے مطابق: ’الہول کیمپ ہمارے لیے رقہ سے زیادہ مہربان تھا۔ میں نے اپنے بچوں اور ان کی تعلیم کے لیے کیمپ چھوڑا لیکن یہاں حالات بہتر نہیں ہیں۔‘
2014 میں نورا نے ایک جہادی سے شادی کی اور داعش کے زیر انتظام کئی علاقوں میں ان کے ساتھ رہیں۔ بعد میں لڑائی کی وجہ سے دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ 2019 میں الہول سے جانے کے بعد سے انہیں اپنے شوہر کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی۔
کیمپ میں چند ماہ رہنے کے بعد نورا کو شام کے قبائلی سرداروں اور کیمپ کی نگرانی کرنے والے کرد حکام کے درمیان ایک معاہدے کے تحت سینکڑوں دیگر شامیوں کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نورا کی گھر واپسی ان کے لیے خوش گوار ثابت نہیں ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ گھروں میں صفائی کا کام کر کے گزر بسر کر رہی ہیں۔ انہیں شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
ان کے بقول: ’کچھ خاندان مجھے گھر میں صفائی کا کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کیوں میں نقاب پہنتی ہوں اور اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میں داعش کی حامی ہوں۔ معاشرہ مجھے قبول نہیں کرنے کے تیار نہیں۔‘
رقہ کی رہائشی سارہ ابراہیم نامی خاتون نے خبردار کیا کہ الہول سے رقہ واپس آنے والے لوگوں کو بدنام کرنا خطرناک ہے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’رقہ میں بہت سے خاندان ان لوگوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے پر تیار نہیں اور ان کا یہ عمل مستقبل میں انہیں انتہا پسندی کی طرف واپس دھکیل سکتا ہے۔‘
امل نامی خاتون بھی سات ماہ پہلے الہول سے واپس پہنچیں۔
انہوں نے لوگوں کے تعصب سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو نمایاں نہیں کیا۔
چہرے پر نقاب رکھنے والی امل کہتی ہیں: ’رقہ میں میرے ہمسایوں کے علم میں نہیں ہے کہ میں الہول میں مقیم تھی۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر انہیں پتہ چل جائے کہ میں وہاں رہتی تھی تو ان کے خیالات میں منفی تبدیلی آئے گی۔ جب تک میری زندگی میں سکون ہے لوگوں کو کچھ جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔‘