پشتو موسیقی میں سُر دینے والے آلے اکارڈیئن (دہ غاڑے باجا) کے موسیقار اب معدوم ہونے لگے ہیں اور اب مشہور اکارڈیئن پلیئرغلام علی کے بعد صرف دو موسیقار ہی رہ گئے ہیں۔
ان دو موسیقاروں میں اکوڑہ خٹک سے تعلق رکھنے والے اقبال حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پورے خیبر پختونخوا میں اکارڈیئن بجانے والے کم ہوتے جارہے ہیں اور اس وقت صرف دو موسیقار اکارڈیئن بجاتے ہیں جن میں ایک پشارو کے سجاد استاد اور دوسرے اقبال حسین اکوڑہ خٹک والے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں پچھلے 30 سال سے اکارڈیئن بجا رہا ہوں جس کو ہم پشتو میں ’دہ غاڑے باجا‘ کہتے ہیں اور انگریزی میں کورڈین جبکہ ہم سادہ الفاظ میں اسے اکارڈیئن کہتے ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقبال حسین نے کہا کہ ’اکارڈیئن دوسرے موسیقی کے آلات سے مختلف ہے کیوں کہ اس میں اوپر نیچے سُر ہے جسے ڈبل سُر کہا جاتا ہے اور اس کے ایک سُر میں چھ سُر بجتے ہیں جبکہ باقی آلات میں تو دو دو سُر ہوتے ہیں۔‘
اقبال حسین نے کہا کہ اکارڈیئن بجانے کے لیے شوق اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور سیکھنے میں بھی زیادہ وقت لگتا ہے۔
اقبال حسین کے مطابق جتنے بھی اکارڈیئن یہاں ہیں سب جرمنی سے لائے گئے ہیں اوراب بھی لائے جاتے ہیں۔
اکارڈیئن کی قیمت جو پہلے کبھی 30 ہزار ہوا کرتی تھی اب 80 ہزار ہے۔
اقبال حسین کہتے ہیں کہ اکارڈیئن کے ذریعے موسیقی کے بہت پروگرامز کیے ہیں، ’پشتو کے جتنے نامور گلوکار ہیں مجھے اکارڈیئن بجانے کے لیے بلاتے ہیں اورآرمی، ریڈیو سٹیشن والے، ریڈیو پاکستان والے بھی مختلف پروگرامز میں مجھے اکارڈیئن بجانے کے لیے بلاتے ہیں۔‘
’پشتو کے مشہور گانے ’راشہ جانانہ‘ اور ’راوڑہ بندے بندے‘ کی موسیقی میں غلام علی استاد اکارڈیئن بجاتے تھے تو بہت مزہ آتا تھا، ہم تو ان کو اب بھی یاد کرتے ہیں اور ان ہی سے اکارڈیئن بجانے کا شوق پیدا ہوا۔‘