اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق کئی ہفتوں کے تھکا دینے والے سمندری سفر کے بعد انڈونیشیا کے ساحل پر پہنچنے والے دو سو کے قریب روہنگیا پناہ گزینوں کو ہنگامی طبی امداد دی گئی ہے، جنہیں ماہی گیروں نے بچایا تھا۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے بھی تصدیق کی ہے کہ لکڑی کی ایک بوسیدہ کشتی پر سوار کم از کم 174 روہنگیا افراد پیر کو انڈونیشیا کے شمالی صوبے آچے کے ساحلی علاقے پر پہنچے تھے۔
36 مردوں، 31 خواتین اور 107 بچوں پر مشتمل یہ گروپ 57 مزید روہنگیا پناہ گزینوں کے آچے پہنچنے کے ایک دن بعد ساحل پر اترا۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے عرب نیوز کو ایک تحریری جواب میں بتایا: ’اس گرپ میں شامل افراد کی صحت بہت خراب تھی۔ ان میں سے بہت سے لوگ پانی کی کمی اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ آئی او ایم کی میڈیکل ٹیم فی الحال ان کا طبی معائنہ کر رہی ہے۔‘
انڈونیشیا کی نیشنل ریفیوجی ٹاسک فورس کے رکن ایروس شیدکی پوترا نے عرب نیوز کو بتایا کہ پناہ گزینوں کو فی الحال مقامی حکومت کی نگرانی میں رکھا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا: ’اس کے بعد ہم انہیں ایک ایسے صوبے میں منتقل کر دیں گے جہاں پہلے ہی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ آچے میں مہاجرین کو پناہ نہیں دی جاتی۔‘
گذشتہ ماہ نومبر کے اختتام پر بنگلہ دیش میں روہنگیا کمیونٹی کی سب سے بڑی بستی کاکس بازار کے ساحل سے کم از کم پانچ کشتیاں سینکڑوں پناہ گزینوں کو لے کر دوسرے ملکوں میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں نکلی تھیں۔
154 مہاجرین کو لے جانے والی ایک کشتی کو ویتنام کی ایک آف شور کمپنی نے بچایا اور میانمار کی بحریہ کے حوالے کر دیا جب کہ 104 افراد کو لے جانے والی ایک اور کشتی کو سری لنکا کی بحریہ نے 18 دسمبر کو بچایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین نے کہا تھا کہ اسے غیر مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ 180 افراد کو لے جانے والی ایک کشتی ڈوب گئی ہے۔
بین الاقوامی تنظیمیں اور سماجی کارکن کئی ہفتوں سے خطے کے ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ وہ سمندر میں پھنسے ہوئے پناہ گزینوں کو نکالیں لیکن مدد کے لیے متعدد اپیلوں کے باوجود کوئی سرکاری امداد نہیں بھیجی گئی۔
27 سالہ خاتون ہاتامونیسا، جو پیر کو انڈونیشیا پہنچنے والی کشتی میں اپنی پانچ سالہ بیٹی کے ساتھ سوار تھیں، نے ایک ماہ سے زائد عرصے بعد منگل کو اپنے بھائی محمد رضوان خان سے پہلی بار بات کی۔
رضوان خان نے بتایا: ’ہمیں لگتا ہے کہ آج ہمیں ایک نئی دنیا مل گئی ہے۔ ہم ان کے چہرے دوبارہ دیکھ سکتے تھے۔ یہ واقعی ہم سب کے لیے خوشی کا لمحہ ہے۔‘
ان کی بیٹی کا ڈی ہائیڈریشن کے لیے علاج کیا جا رہا ہے کیوں کہ اس سفر کے دوران انہوں نے سمندر کا نمکین پانی پیا اور 13 دن تک کچھ نہیں کھایا تھا۔
ہاتامونیسا کے مطابق ان کی کشتی پر سوار 20 افراد ہلاک ہوگئے تھے، جن کی باقیات کو سمندر میں پھینک دیا گیا تھا۔
رضوان خان نے بتایا: ’انہیں لگا کہ شاید وہ بھی سمندر کے سفر میں مر جائیں گی۔ ان کو امید تھی کہ اگر وہ ملائیشیا جا سکتی ہیں تو وہاں ان کی بیٹیوں اور ان کے لیے بہتر مستقبل ہوگا۔‘
2017 میں میانمار کی فوج کے وحشیانہ حملوں کے بعد ساڑھے سات لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان ہمسایہ ملک بنگلہ دیش فرار ہو گئے تھے۔ میانمار کے اس کریک ڈاؤن کو اقوام متحدہ نے نسل کشی کے مترادف قرار دیا تھا۔
گذشتہ پانچ سالوں سے ان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں بے ہنگم اور کچھا کھچ بھرے کیمپوں میں رہائش پذیر ہے، لیکن انہیں یہاں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال نے کچھ لوگوں کو بہتر زندگی کی امید میں سمندری راستے سے خطرناک سفر کرنے پر اکسایا۔