جمعرات کو ٹوئٹر پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے کچھ کم سن بچوں کے جھانکنے کی تصویر وائرل ہوئی۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ افغان کم سن بچوں کو بھی جیل میں رکھا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر نے بھی یہ تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’یہ تصویر اسرائیلی جیل میں فلسطینی بچوں کی نہیں بلکہ افغان بچوں کی پاکستان کی ایک جیل کی ہے۔
’وفاقی حکومت نے کیوں کراچی کی جیل کو چنا۔ کیوں باقی ماندہ کیس خیبر پختونخوا میں درج ہونے کے باجود علی وزیر کو کراچی جیل میں رکھا گیا ہے۔'
صحافی اور اینکرپرسن سلیم صافی نے تصویر والی ٹویٹ شیئر کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے مطالبہ کیا کہ ان بچوں کو آزاد کیا جائے
تاہم وزیر اعلیٰ ہاؤس سندھ نے اس تصویر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے ٹوئٹر پر واضح کیا کہ ’سندھ کی کسی بھی جیل میں ایک بھی افغان بچہ قید نہیں۔ ٹوئٹر پر اس طرح کا پراپیگنڈا کیا جارہا ہے۔‘
وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے اس تصویر کو ’جھوٹا‘ اور ’سندھ حکومت کے خلاف پراپیگنڈا‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا: 'سندھ کی کسی جیل میں ایک افغان بچہ بھی قید نہیں۔ یہ صرف سندھ حکومت کے خلاف ایک سازش ہے۔
ان کے بقول: ’سندھ حکومت کیوں کسی افغان بچے کو قید رکھے گی؟ یہ وفاقی مسئلہ ہے۔ ہم جب بھی کسی غیرقانونی طور پر آنے والے افغان شہری کو پکڑتے ہیں تو وفاقی حکومت کے حوالے کر دیتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ تصویر کچھ وقت پہلے گرفتار کیے گئے افغان شہریوں کے ساتھ موجود بچوں کی ہوسکتی ہے، جن کے والدین کو گرفتار کرکے واپس افغانستان بھیجا گیا تھا۔
ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ’یہ تصویر سندھ کی کسی جیل کی نہیں۔‘
تصویر کہاں سے آئی؟
کراچی میں انسانی حقوق پر کام کرنے والے سماجی رہنما ثمرعباس نے یہ تصویر پہلی بار شیئر کی تھی۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ آج کل کراچی کی جیلوں میں قید افغان خواتین کی قانونی مدد کرنے والی وکیل منیزہ کاکڑ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
ثمرعباس کے مطابق: ’بدھ 28 دسمبر کو کراچی کی لانڈھی جیل میں قید خواتین کو سٹی کورٹ لایا گیا تھا۔ جہاں انہیں بخشی خانے کے لاک اپ میں رکھا گیا۔ ان کے ساتھ تصویر میں نظر آنے والے بچے بھی تھے۔
’میں اور منیزہ کاکڑ ان خواتین میں ڈیٹول اور صابن بانٹ رہے تھے کیوں کہ ان میں جلدی امراض بہت ہیں۔ اس دوران جب لاک اپ کے اندر موجود بچوں سے منیزہ بات کر رہی تھیں تو میں نے یہ تصویر کھینچی۔‘
ثمرعباس کے مطابق حکام غیرقانونی طور پر پاکستان آنے والے افغان شہری کو 'فارینر ایکٹ 1946' کی دفعہ 14 کی شق دو کے تحت گرفتار کرتے ہیں۔
’گرفتار مردوں کے پاس شناختی کارڈ ہونے کی وجہ سے انہیں پکڑ کر واپس افغانستان بھیج دیا جاتا ہے۔ مگر خواتین کی اکثریت کو شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ثمرعباس کے مطابق کراچی کی جیلوں میں قید افغان خواتین کے ساتھ بڑی تعداد میں کم سن بچے بھی موجود ہیں۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے گذشتہ ہفتے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ صرف کراچی کی سینٹرل جیل کی ویمن ونگ میں 139 افغان خواتین قید ہیں، جن میں سے 56 کو سزائیں ہو چکی ہیں جب کہ 83 انڈر ٹرائل خواتین ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان خواتین کے ساتھ 165 کم سن بچے ہیں جبکہ بچہ جیل میں 10 سے 13 سال کی عمر کے 111 افغان بچے قید ہیں، جن میں 92 افغان بچوں کو سزا ہوچکی ہے اور 19 انڈر ٹرائل ہیں۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس سندھ کی رکن انیس ہارون نے کہا: ’پاکستانی قانون کے تحت کسی قیدی کی رہائی یا تو سزا پوری کے بعد ممکن ہے یا پھر کوئی آ کر ضمانت دے۔
’ضمانت کے لیے نقد رقم یا کوئی پراپرٹی یا کوئی اور قیمتی چیز کے عوض ہوتی ہے۔ ان افغان خواتین کی کوئی بھی فرد ضمانت دینے کو تیار نہیں اس لیے بڑی تعداد میں یہ خواتین قید ہیں۔'