بھارتی ایوانِ زیریں (لوک سبھا) سے منظوری کے بعد تین طلاق کا بل آج ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی منظور کرلیا گیا، جو بھارتی صدر کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد قانون کی شکل اختیار کرلے گا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق وزیر قانون روی شنکر پرساد نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’آج ایوان کے لیے تاریخی دن ہے۔‘
انہوں نے طلاق ثلاثہ بل کو ایوان میں بحث کے لیے پیش کرتے ہوئے کہا کہ 20 سے زیادہ اسلامی ممالک (جن میں پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں) میں تین طلاق پر پابندی عائد ہے لہذا بھارت جیسے ملک میں اسے جاری نہیں رکھا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسلمان خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کہا ہے۔
دوسری جانب کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے طلاق ثلاثہ بل کی پُر زور مذمت کی گئی۔
مرکزی حکومت کی چند اتحادی جماعتوں نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے۔ نتیش کمار کی قیادت میں بہار کی جے ڈی یو (جنتا دل یونائٹیڈ) نے تو تین طلاق بل کی مخالفت میں ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔ جے ڈی یو کے رکن پارلیمان وششٹھ نارائن سنگھ نے کہا کہ ’ہماری پارٹی اس بل کے ساتھ نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہر پارٹی کا ایک نظریہ ہوتا ہے اور وہ اس پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا: ’نظریے کا سفر چلتا رہتا ہے، اس کی لہریں تقسیم بھی ہوتی ہیں لیکن ختم کبھی نہیں ہوتیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اس بل کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ہماری پارٹی اس اس بل پر واک آؤٹ کرتی ہے۔‘
بھارت میں رہنے والے مسلمانوں میں 17 کروڑ سنی مسلمان ہیں جو مسلم پرسنل لا کے تحت خاندانی مسائل کے حل پر یقین رکھتے ہیں۔اس قانون کے تحت مسلمان مردوں کو اجازت تھی کہ وہ ایک ہی وقت میں تین بار ’طلاق‘ کا لفظ کہہ کر اپنی بیوی کو طلاق دے سکتے تھے۔ ایسا کسی بھی ذریعے سے کیا جا سکتا تھا چاہے فون کال کرکے کہا جائے ، میسج پر یا کسی سوشل میڈیا پوسٹ پر۔
دوسری جانب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بل کی منظوری کو ’سیاہ دن‘ قرار دیتے ہوئے ٹوئٹر پر پیغام جاری کیا کہ بھارتی مسلمان خواتین کی جانب سے مخالفت کے باوجود مودی حکومت نے تین طلاق کا بل ایوان زیریں اور ایوان بالا میں منظور کرلیا۔ ہم ہزاروں خواتین کی جانب سے اس کی مذمت کرتے ہیں۔
Certainly, it's a black day in Indian democracy. Despite Indian Muslim women's opposition to the #TripleTalaqBill, the Modi led government passed the bill in both the lower house and the upper house. We on behalf of millions of women condemn this action.
— All India Muslim Personal Law Board (@AIMPLB_Official) July 30, 2019
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے لیے 99 کے مقابلے میں 84 ووٹوں سے ہونے والی یہ منظوری ایک کامیابی سمجھی جا رہی ہے۔ حزبِ اختلاف ایک سال سے زیادہ عرصے تک اس بِل کو روک کر رکھنے میں کامیاب ہوئی تھی کیونکہ ایوان بالا میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو اکثریت حاصل نہیں تھی۔
کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد کا کہنا ہے کہ ’حزب اختلاف کی جماعتیں ایک ساتھ تین طلاقیں دینے والے شوہر کو تین سال قید کی سزا دینے کے خلاف ہیں۔ کسی اور مذہب میں ایسی کوئی سزا نہیں ہے۔‘
راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں نے اپوزیشن کے اس مطالبے کو بھی مسترد کر دیا جس میں اس بل کو مزید ترامیم کے ساتھ پارلیمانی کمیٹی میں بھیجنے کا کہا گیا تھا۔