خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں منگل کو ایک گہرے اور تنگ کنویں میں گرنے والے بچے کو نکالنے کے لیے شروع کیا گیا آپریشن ورثا اور علاقہ عمائدین کے فیصلے کے بعد ختم کردیا گیا ہے اور ’کنویں کو ہی قبر ڈیکلیئر کر دیا گیا ہے۔‘
ریسکیو 1122 کے مطابق بارش کے باعث خراب موسم اور جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو عملے کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ ریسکیو 1122 خیبر کے ترجمان مقصود آفریدی نے بتایا کہ ہم نے بھرپور کوشش کی اور تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپریشن میں حصہ لیا، لیکن گہرے کنویں سے بچے کو نکالنا مشکل تھا کیونکہ بچے پر گرنے کے دوران مٹی کے تودے اور بعد میں کچھ پتھر گر گئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے ایک رسا بچے کی ٹانگوں پر بھی پھینکنے کی کوشش کی لیکن بچے کی ٹانگیں دیوار سے چپک گئی تھیں اور ان پر کچھ پتھر بھی گر گئے تھے، تو وہ بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ تین سالہ بچہ منگل کی دوپہر تقریباً تین بجے تحصیل باڑہ کے علاقے عالم گودر میں کھیل رہا تھا کہ گھر کے قریب (بور والے) کنویں میں جا گرا۔‘
’کنویں کی گہرائی تقریباً 260 فٹ جب کہ چوڑائی 12 انچ ہے اور زیادہ تنگ ہونے کی وجہ سے ریسکیو عملے کا کوئی بھی رکن نیچے نہیں اتر سکتا کہ بچے کو نکال سکے۔‘
انہوں نے بتایا کہ تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے گئے تاہم پورے پاکستان میں اتنے گہرے اور تنگ کنویں سے کسی کو نکالنے کے لیے کسی قسم کے آلات موجود نہیں، تمام تر دشواریوں کے باوجود حتی الامکان کوشش کی گئی کہ کسی بھی طریقے سے بچے کو نکالا جا سکے۔
قبل ازیں مقصود سے جب پوچھا گیا کہ بچے کی حالت کیسی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ کیمروں کی مدد سے دیکھا گیا تو بچہ کوئی حرکت نہیں کر رہا ہے جب کہ کنویں میں پانی بھی موجود نہیں ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے ترجمان مقصود آفریدی نے بتایا کہ ایسے واقعات ماضی میں بھی سامنے آئے ہیں اور پشاور کی انجینیئرنگ یونیورسٹی کو ایک خط لکھ کر اسی طرح گہرے اور تنگ کنویں کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے ایسے آلات کی تیاری کی سفارش کی جائے گی، جن کے ذریعے ایسی صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
یاد رہے کہ اسی قسم کا ایک واقعہ گذشتہ سال فروری میں افغانستان کے صوبے زابل میں بھی پیش آیا تھا، جہاں بچے کو نکالنے کے لیے بھاری مشینری کا استعمال کیا گیا تھا۔
وہ آپریشن تقریباً چار روز تک جاری رہا لیکن اس واقعے میں گرنے والے بچے کی عمر چھ سال سے زیادہ تھی اور وہ بچہ آپریشن ٹیم کے اراکین سے کیمرے کے ذریعے بات کرنے کے بھی قابل تھا جب کہ بچے کو خوراک اور آکسیجن بھی فراہم کی جاتی رہی۔
اس آپریشن میں کنویں کی تنگ چوڑائی کی وجہ سے آس پاس کی زمین کو کاٹ کر راستہ بنایا گیا لیکن کنویں سے نکالنے کے کچھ ہی دیر بعد وہ بچہ انتقال کر گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقصود سے جب پوچھا گیا کہ کیا افغانستان میں کیے گئے آپریشن کی طرز پر باڑہ میں کارروائی ممکن نہیں ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس کنویں کے آس پاس کی مٹی نرم تھی جب کہ باڑہ کے واقعے میں کنویں کے آس پاس کی زمین پتھریلی ہے۔
مقصود نے گفتگو کے دوران بتایا کہ ’پتھریلی زمین کو اتنی گہرائی تک کاٹنے میں بہت دن لگیں گے، لیکن ہم ضلعی انتظامیہ کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔‘
مقصود کا کہنا تھا کہ کنویں میں گرنے والا بچہ تین سال کا تھا جو نہ تو کیمرے کے ذریعے بات کر سکتا تھا اور نہ ہم نے بچے کے جسم میں کوئی حرکت گرنے کے بعد نوٹ کی۔