پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ جھڑپ کے دوران کشمیر کی سرحد پر کام کرنے والے 50 چینی شہریوں کو نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے مقامی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے عہدیدار اختر ایوب نے بتایا کہ چینی شہری پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ دریائے نیلم اور جہلم پر تعمیر ہونے والے ڈیم پر کام کر رہے تھے کہ منگل کی رات فائرنگ کے باعث حکام کو کام روک کر ورکرز کو وہاں سے نکالنا پڑا۔
ایک اور مقامی افسر راجا شاہد محمود نے بتایا کہ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب بھارتی سیکورٹی فورسز نے ’بلااشتعال فائرنگ‘ شروع کردی، جس کے نتیجے میں 24 گھنٹوں کے دوران ایک خاتون اور بچے سمیت تین افراد ہلاک اور 31 زخمی ہوگئے۔
دونوں روایتی حریف ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اُس وقت اضافہ ہوا جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے میں 40 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کی اور فروری ہی میں پاکستان کے خلاف فضائی کارروائی کی کوشش کی، تاہم پاکستانی فضائیہ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف بھارتی طیارے کو مار گرایا بلکہ ایک پائلٹ کو بھی حراست میں لیا، جسے بعدازاں بھارت کے حوالے کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اُس وقت کے بعد سے دونوں ملک بظاہر تو پیچھے ہٹ گئے ہیں، لیکن لائن آف کنٹرول پر دونوں جانب سے فائرنگ کا سلسلسہ بدستور جاری ہے۔
کشمیر ایک متنازع خطہ ہے، جس کی ملکیت کا دعویٰ پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے کیا جاتا ہے اور 1947 میں تقسیم کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی تین جنگوں میں سے دو کشمیر پر ہی ہوئیں۔
فائرنگ کا حالیہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا، تاہم بھارت نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات سے ہی حل ہوسکتا ہے۔