ایک ایسے وقت میں جب باقی دنیا جدید تکنیکی مصنوعات میں دلچسپی لے رہی ہے، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ایک کاریگر دھان کی گھاس سے بنی چپل اور دیگر اشیا بنا کر وہ وقت یاد کروا رہے ہیں، جب کشمیری صرف یہی استعمال کرتے تھے۔
گھاس کی بنی یہ چپلیں، جنہیں پلہور کہا جاتا ہے اور چٹائیاں کشمیریوں کے پسندیدہ ہوا کرتے تھے۔ سردیوں میں، چٹائیاں انہیں گرم رکھتیں جبکہ چپل انہیں برف پر مضبوطی سے پیر جمانے میں مدد دیتیں۔
محمد یوسف بھٹ، جنہوں نے اپنے والد سے اس کام کی تربیت لی، سری نگر کے مضافات میں رہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’اس مہارت کے ذریعے ہم چٹائی اور چپل سمیت مختلف قسم کی چیزیں بنا سکتے ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ دھان کی گھاس تازہ اور خشک ہو۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ کشمیر میں چند دہائیاں قبل تک زیادہ تر لوگ چمڑے کے جوتے استعمال کرنے یا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ گھاس کا سامان استعمال کرتے تھے۔
بقول یوسف: ’نوجوان اس پرانی دستکاری پر بہت کم توجہ دیتے ہیں کیونکہ نئے متبادل دستیاب ہیں۔ تقریباً پانچ چھ ماہ قبل، اس فن نے کشمیر میں دستکاری اور ہینڈ لومز کے محکمے کی توجہ حاصل کی اور انھوں نے اسے ڈیزائن سکول میں شامل کر لیا۔‘