کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کپتان چپل کا بڑا شور تھا۔ کپتان نے پہن لیے تو بنانے والوں کے وارے نیارے ہو گئے اور شہر شہر برانچیں کھل گئیں اور کپتان چپل منہ مانگے دام پر فروخت ہونے لگے۔
کپتان چپل کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ وہی چمڑا تھا، وہی تلوے تھے، بنانے والے کب سے بنا رہے تھے، مگر کوئی پوچھتا تک نہیں تھا۔ مگر جب کپتان نے ان چپلوں میں اپنا پاؤں ڈالا تو ان کو ایک نام مل گیا، ’کپتان چپل۔‘ بس پھر کیا تھا یہ چپل ہاتھوں ہاتھ بلکہ پاؤں پاؤں بکنا شروع ہو گئے۔
یہی شہرہ سن کر ہم بھی کپتان چپل خریدنے ایک دکان پر پہنچ گئے۔ پہلے اچھی طرح تسلی کی کہ اصلی کپتان چپل ہیں۔ دکاندار نے یقین دہانیاں کرائیں کہ چارسدہ کی ہیں، کپتان کی تصاویر بھی دکھائیں جو ان کی دکان پر تشریف لے گئے تھے۔
وہ چپل پہن کر ایک عجب سکون محسوس ہوا کہ اسی قسم کے چپل ہمارا کپتان پہنتا ہے۔ وہ کپتان جس نے ورلڈ کپ جتوایا، وہ کپتان جس نے ہسپتال بنوایا وہ کپتان جس نے دو پارٹی سسٹم میں اپنی جگہ بناتے ہوئے چوروں ڈاکوں کو للکارا۔ وہ کپتان جس نے دو عشروں کی محنت ایک امید کے تحت کی اور اپنے چاہنے والوں کو بھی امید کی کرنیں دکھائیں۔
آخرکار دیوانے کا خواب پورا ہوا اور کپتان کی کپتانی کا وقت آیا۔ ہر کسی کو یقین تھا کہ بس اب تو کپتان کسی کو نہیں چھوڑے گا جو بھی دو نمبری کرے گا، یہی چپل ہو گی اور اس کی کمر۔ کپتان تو ویسے بھی بےدید مشہور ہے۔ شور اٹھے گا واہ! یہ ہوتا ہے انصاف، یہ ہوتی ہے حکمرانی اور یہ ہوتی ہے وعدے کی پاسداری۔ ملک میں ہر طرف سکون ہو گا، مہنگائی سے پسی عوام سکون کا سانس لیں گے، برسوں سے پولیس کی ستائی قوم ایک نیا نظام دیکھے گی۔ ہسپتال میں جا کر کوئی خوار نہیں ہو گا، تعلیم کا یکساں نظام ہو گا، اقربا پروری کا تو لفظ ہی ڈکشنری سے نکال دیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مگر یہ کیا؟ دو سال ہو گئے۔ کل ایک ہسپتال کے وارڈ میں کپتان کی کپتانی میں مریضوں کو رلتے دیکھا۔ کل تک اشرافیہ کا علاج باہر ہوتا تھا، جو آج کپتان کی کپتانی میں بھی ہو رہا ہے۔ کل بھی وی آئی پی طریقہ علاج موجود تھا، آج بھی ہے۔ تھانوں میں پرچہ کٹوانا کل بھی محال تھا اورکپتان کی کپتانی میں آج بھی وہی طریقہ کار رائج ہے۔
کل بھی رشتہ دار اور اس کے رشتے دار ایم این اے وزیر اور مشیر تھے آج کپتان کی کپتانی میں بھی سب کچھ ویسا ہی ہے۔ کل دس لوگ بیروزگار تھے تو آج کم نہیں زیادہ ہی ہیں۔ کل روزمرہ استعمال کی چیزیں جتنی مہنگی تھیں، آج اس سے بھی زیادہ مہنگی ہیں۔ کچھ نہیں بدلا، اگر کچھ بدلا ہے تو وہ کپتان خود ہے۔
کل تک جو کپتان دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی بات کرتا تھا آج اس کے پاس صرف اپنی ذات کی حد تک کفایت شعاری کر کے بچت کرنے کے سوا اور گنوانے کو کچھ بھی نہیں۔ یہاں تک کہ اپنے وزیر اعلیٰ یعنی وسیم اکرم پلس کا پروٹوکول بھی ختم نہیں کروا سکا۔ آج ان کے اپنے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ ہم صرف نٹ بولٹ ٹھیک کرنے نہیں آئے تھے ہم تو ریفارمز کرنے آئے تھے، ملک تبدیل کرنے آئے تھے۔ دوسال کے بعد سمت کا پتہ ہے نہ منزل کی خبر، اگر کچھ پتہ ہے تو بس یہ کہ پچھلوں نے لوٹا، پچھلوں نے سب خراب کیا اور جو وزرا اور ایم این اے کارکردگی کا دفاع نہیں کر سکتے وہ کپتان صاحب توقع کرتے ہیں کہ اپنے من پسند صحافی دفاع کریں۔
کیا کپتان چپل کو نہ پہننے کی یہ وجوہات کافی نہیں ہیں؟ دو سال گزر گئے، باقی بھی ایسے ہی گزر جائیں گے۔ اب تو کان پک گئے ہیں تقریریں سن سن کر کہ جب میں لاہور میں بڑا ہو رہا تھا تو یہ تھا پھر یہ ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ میں کرکٹر نہیں بن سکتا۔ میدان میں جیتنے کے لیے اتریں ہارنے کے لیے نہیں۔
بس کر دیں کپتان صاحب، کچھ کر کے دکھائیں۔ کپتانی میں تقریریں نہیں کچھ کر کے دکھانا ہوتا ہے۔ کچھ اچھا نہیں باہر نکل کر دیکھیں تقریروں کا طلسم ٹوٹ چکا ہے۔ عملی نمونہ ناکام ہو چکا ہے۔ اب تو کپتان چپل لوگوں کو اپنے سروں پر پڑتی محسوس ہو رہی ہے۔ اب بھی وقت ہے مان لیں کہ کچھ نہیں کیا۔
نکل آئیں تقریروں سے اور آپ نے احساس نہ کیا تو کہیں کپتان چپل کی زد میں آپ خود ہی نہ آ جائیں۔
جب تک آپ یہ نہیں کرتے، میں اس وقت تک کپتان چپل پاؤں سے اتار کر الماری میں رکھ رہا ہوں۔