انڈین دفتر خارجہ کے حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی ہے کہ اسلام آباد میں موجود انڈین ہائی کمیشن نے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس کا دعوت نامہ پاکستانی دفتر خارجہ کو پہنچا دیا گیا ہے۔
تاہم ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ نے اس حوالے سے نہ تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید بلکہ کوئی بھی کمنٹ کرنے سے گریز کیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا 23واں اجلاس رواں برس انڈیا میں ہو گا۔ سربراہان مملکت سے قبل وزرا خارجہ کا اجلاس مئی میں انڈیا کے شہر گووا میں ہو گا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا دعوت نامہ بھجوانے کے تین زریعے ہوتے ہیں۔ پہلا زریعہ تو یہ کہ میزبان ملک میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن / سفارت خانے کے توسط سے پاکستان دفتر خارجہ کو مراسلہ یا دعوت نامہ پہنچایا جاتا ہے۔اور اگر یہ طریقہ استعمال نہ کیا جائے تو میزبان ملک اپنے سفارت خانے کے توسط سے متعلقہ ملک کو دعوت نامہ بھجواتا ہے۔
اگر یہ دونوں طریقے استعمال نہ کیے جائیں تو شنگھائی تعاون تنظیم کا مرکزی سیکرٹیریٹ خود رکن ممالک کو اجلاس کے دعوت نامے بھجواتا ہے۔
سفارتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بھارت کی جانب سے ایک دعوت نامہ چیف جسٹس آف پاکستان کے نام بھی بھجوایا گیا ہے۔ مارچ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے چیف جسٹسسز کا اجلاس ہو گا لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان بھی اس معاملے پر خاموش ہے۔
بھارت اس سال شنگھائی تعاون تنظیم کے منتظم صدر کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے تاحال جواب نہیں دیا گیا جو کہ توقع ہے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں دفتر خارجہ پاکستان اس حوالے سے بیان جاری کرے گا۔
اس سے قبل انڈین میڈیا نے خبریں نشر کی تھیں کہ نئی دہلی حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے مئی میں ہونے والے اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو مدعو کیا ہے۔
انڈین ویب سائٹ ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق یہ دعوت نامہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے دیا گیا۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق اگر پاکستان دعوت قبول کرتا ہے تو بلاول بھٹو زرداری تقریباً 12 سال کے وقفے کے بعد انڈیا کا دورہ کرنے والے پہلے وزیر خارجہ ہوں گے۔
پاکستان اور انڈیا 1947 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ان میں دو جنگیں کشمیر کی وجہ سے ہوئیں۔
انڈیا کا الزام ہے کہ اس کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان کئی دہائیوں سے جاری لڑائی کو ہوا دے رہا ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ انڈیا کے الزامات کی تردید کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2019 کے آخر میں ایک بار پھر اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہوا جب بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کردی۔
انڈیا کی جانب سے پاکستانی وزیر خارجہ کو دعوت کی خبریں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں، جب ایک ماہ قبل بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں سخت بیان دیا تھا، جس پر انڈیا میں سڑکوں پر احتجاج ہوا تھا۔
انڈیا نے بلاول بھٹو زرداری کے بیان کو ’غیر مہذب‘ قرار دیا تھا۔
اسی طرح چند روز قبل پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر انڈیا کے ساتھ مذاکرات کی بات کی تھی۔
اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ دنوں کہا کہ نئی دہلی کے اقدامات کے نتیجے میں کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ مذاکرات معطل ہیں، حالانکہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کچھ کوششیں کی گئی ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے دونوں ملکوں میں ثالثی کی آخری کوشش 2021 میں کی تھی اور شہباز شریف نے انڈیا کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک بار پھر یو اے ای کی مدد مانگی ہے۔
پاکستانی سابق سفیر اس معاملے پر کیا کہتے ہیں؟
انڈیا میں تعینات سابق پاکستانی ہائی کمشنر عبد الباسط نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان شرکت نہ کرے پاکستان کو لازمی شرکت کرنی چاہیے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا فورم جتنا بھارت کا ہے اتنا پاکستان کا بھی ہے۔ اس سال بھارت میں اجلاس ہے تو پاکستان کی بھی باری آئے گی۔ اس لیے بطور رکن ملک شرکت کرنا انہونی نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’چین کے بھی انڈیا کے ساتھ سرحدی معاملات رہے ہیں لیکن وہ بھی شرکت کریں گے۔ روس بھی ہو گا تو ہو سکتا ہے دوست ممالک پاکستان کی دو طرفہ ملاقات اور باہمی بات چیت میں کردار ادا کریں۔‘
سابق سفیر آصف درانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ دو طرفہ ممالک کی خصوصی ملاقات نہیں ہے بلکہ یہ ایک کثیر الارکنی فورم ہے جہاں پہلے بھی پاکستان شرکت کرتا رہا ہے ماضی میں بھی مختلف کثیر الارکنی فورمز پہ پاکستان بھارت اکٹھے ہوئے ہیں تو اس تناظر میں پاکستان کو جانا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ ’پاکستان کے جانے سے دونوں ممالک کے مابین برف پگھل بھی سکتی ہے اس لیے یہ اچھا موقع ہے۔‘
سابق پاکستانی سفیر عاقل ندیم نے کہا کہ ’رابطے بند نہیں ہونے چاہییں، اگر ایسا موقع آیا ہے تو پاکستان کو ضرور جانا چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی حال ہی میں بیان دیا تھا کہ پاکستان بات چیت کرنا چاہتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ بین الاقوامی فورم ہے جس کے پاکستان اور بھارت رکن ہیں اس لیے پاکستان کو بھی بھارت کو وجہ بنا کر شرکت سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پس پردہ ڈپلومیسی تو چل ہی رہی ہے دونوں ممالک کے افسران تیسرے ملک میں جا کر ملاقاتیں کر رہے ہیں اس لیے بات چیت ہی مسائل کا حل ہے۔‘
شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم جنوبی اور وسطی ایشیا میں پھیلی ایک بڑی بین علاقائی تنظیم ہے۔ جس کا باقاعدہ قیام سنہ 2001 میں ہوا۔
اس سے قبل 1996 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پانچ رکن ممالک تھے جنہیں شنگھائی پانچ بھی کہا جاتا تھا۔ ابتدائی اراکین میں چین، روس، قزاقستان، کرغستان اور تاجکستان شامل تھے۔
جب 2001 میں ازبکستان بھی شامل ہوا تو اس کا نام شنگھائی فائیو سے تبدیل کر کے ایس سی او رکھ لیا گیا۔ کیوں کہ اس وقت نائن الیون کے بعد سے شدت پسندی عروج پر تھی اس کے علاوہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔ اس لیے ابتدا میں اس تنظیم کا مقصد شدت پسندی کا خاتمہ اور خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا تھا۔
بعد ازاں رکن ممالک کے مابین سکیورٹی اور تجارتی تعلق مضبوط کرنا اور امن کا قیام کو بھی شامل کیا گیا۔ سنہ 2017 میں آستانہ میں ہوئی جہاں بھارت اور پاکستان کو بھی مستقل رکن کے طور پر شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کیا گیا جس کے بعد رکن ممالک کی تعداد اب آٹھ ہو چکی ہے۔ جبکہ افغانستان بیلا روس، ایران اور منگولیا آبزرور رکن ممالک ہیں۔ اس کے علاوہ نیپال ترکی، آزربائیجان ارمینیا کمبوڈیا اور سری لنکا ڈائیلاگ پارٹنر ممالک ہیں۔