تھائی لینڈ کا درالحکومت بنکاک، جہاں آسیان کا سکیورٹی اجلاس جاری ہے، جمعے کو یکے بعد دیگرے چھ بم دھماکوں سے لزر اٹھا۔
حکام کے مطابق چھ بم دھماکے بنکاک کے مختلف علاقوں میں کیے گئے جبکہ ایک اور بم کو پھٹنے سے پہلے قبضے میں لے کر ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔
تھائی وزیراعظم نے ہنگامی طور پر ان واقعات کی تحقیقات اور مجرموں کی گرفتاری کا حکم جاری کیا ہے۔
طبی حکام کے مطابق ان دھماکوں میں چار افراد زخمی ہوئے ہیں تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔
دھماکوں کی جگہ سے موصول ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تین صفائی کرنے والے زخمی کارکنوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
پہلے دو بم دھماکے شہر کے مرکز میں میٹرو سٹیشن کے قریب صبح نو بجے سے پہلے اس وقت ہوئے جب وہاں لوگوں کی چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔ چوتھا شخص 77 منزلہ عمارت کنگ پاور ماہاناخون ٹاور کے قریب ہونے والے دھماکے میں زخمی ہوا۔
ایک وقفے کے بعد شمالی بنکاک میں گورنمنٹ کمپلیکس میں ایک اور بم دھماکہ سنائی دیا جہاں کئی وزارتوں کے دفاتر واقع ہیں۔
فوری طور پر کسی فرد یا تنظیم نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تھائی وزیراعظم نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا: ’ میں ملک کی ساکھ متاثر کرنے اور امن تباہ کرنے والوں کی مذمت کرتا ہوں۔ میں نے حکام کو عوام کے تحفظ اور ان واقعات میں متاثر ہونے والے افراد کی بروقت مدد کی ہدایت کر دی ہے۔‘
نائب وزیراعظم نے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس نے دو مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ان واقعات میں ملوث افراد صورتحال خراب کرنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے۔
اس سے قبل جمعرات کو حکام نے آسیان وزرا خارجہ اجلاس کے مقام کے نزدیک سے دو جعلی بم درآمد کیے تھے تاہم اس سے علاقائی کانفرنس متاثر نہیں ہوئی تھی۔
اس کانفرنس میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو ان کے چینی ہم منصب وانگ یی سمیت کئی تنظیم کے رکن ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہوا کہ جمعے کو ہونے والے بم دھماکوں کا مقصد اس عالمی کانفرنس کو متاثر کرنا تھا یا اس کا تعلق تھائی لینڈ کے حالیہ جمہوری انتخابات سے تھا۔
ماہرین کے مطابق مقامی سیاست میں ایسے کم طاقت اور بے ضرر بم دھماکوں کا استعمال غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ یہ ملک کی طاقتور فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف جد و جہد کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔
اس طرح کے بم دھماکوں کا الزام ہمیشہ حزب اختلاف کی جماعتوں پر عائد کیا جاتا ہے تاہم اس حوالے سے سیاست دانوں کی کم ہی گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔