بعض قدرتی آفات خواہ کتنی ہی تباہ کن ہوں، رہتی وہ قدرتی آفات ہی ہیں۔ دیگر آفات تبدیلیاں لاتی ہیں جن کے آنے میں میں شاید کہیں زیادہ وقت لگا ہو یا وہ تبدیلیاں بالکل ہوئی ہی نہ ہوں۔ اس ہفتے ترکی اور شام میں آنے والا زلزلہ ان ہی آفات میں شامل ہو سکتا ہے جو اگر اب نہیں تو پھر آنے والے مہینوں میں تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔
دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا حصہ ہو جہاں اس طرح کی آفت ترکی اور شام کے مقابلے میں ممکنہ طور زیادہ تباہی پھیلا سکتی ہو۔ یہاں ایک فالٹ لائن ہے جو نہ صرف ارضیاتی بلکہ سیاسی اور ثقافتی بھی ہے۔ زلزلے کے نتیجے میں سامنے آنے والی اس بڑی تباہی کے علاوہ بھی عراق پر امریکی قیادت میں حملے، داعش کے عروج اور شام میں ابھی تک ختم نہ ہونے والی خانہ جنگی کی شکل میں اس خطے نے حالیہ دہائیوں میں کافی اتار چڑھاؤ دیکھا ہے ۔
شام کے صدر بشار الاسد بتدریج ملک کے بیشتر حصے پر اپنا اقتدار دوبارہ قائم کرنے اور اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ ملاقات کی تیاری میں مصروف تھے، جس کا مقصد بین الاقوامی قبولیت کی طرف واپسی کی طرف پہلا قدم اٹھانا تھا اور جو خاص طور پر سنگین ستم ظریفی ہے۔ اب اس ملاقات کا مستقبل اور ترکی-شام تعلقات کی بحالی کے امکانات، زلزلے کی تباہی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بڑے غیر یقینی حالات میں سے ایک معاملہ ہیں۔
سب سے بڑے ناقابل تصور خدشات میں سے ایک خود اردوغان اور ترکی کا فوری مستقبل ہے۔ اردوغان نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات جون کی بجائے مئی میں کروانے جا رہے ہیں۔ اس فیصلے کی توثیق اگلے ماہ ہونی ہے۔ اگرچہ پوری توقع کی جا رہی ہے کہ وہ تیسری مرتبہ صدر منتخب ہو جائیں گے، ان کے دوبارہ انتخاب کو پہلے سے طے شدہ نتیجے کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔ ان کے تیسری مرتبہ الیکشن لڑنے کے فیصلے سے دو سے زیادہ بار صدر نہ بننے کی آئینی پابندی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ترکی کو سنگین معاشی بحران کا سامنا ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے اردوغان کو عہدے سے ہٹانے کی کوشش میں اتحاد قائم کیا ہے۔
زلزلہ سیاسی حالات کو تبدیل کر سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے؟ اگر مرکزی حکومت زلزلے سے متاثرہ علاقے کے لوگوں کی مدد نہیں کر پاتی تو اس کا فائدہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ اردوغان ہنگامی حالت نافذ کر کے انتخابات کو ملتوی کر دیں، جن کی تاریخ انہوں نے حال ہی میں تبدیل کی، تو کیا ایسا کرنا ان کے حق میں ہو گا؟
زلزلے سے بدترین تباہی ترکی کے جنوب مشرقی کرد علاقے میں ہوئی ہے۔ اردوغان ماضی میں سیاسی فائدے کے لیے ترک کردوں کے خلاف جبر سے کام لینے سے باز نہیں رہے۔ کیا کرد مزاحمت کے خلاف نئی کارروائی تیاری کے مراحل میں ہو سکتی ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کے قومی انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
سرحد پار صورت حال بھی زیادہ پیچیدہ ہو چکی ہے یا یوں کہیں کہ سرحد کے قریب شام میں۔ شام کے اس حصے میں کہیں باغیوں کا کنٹرول ہے تو کہیں تبدیل ہوتے اتحاد ہیں اور خانہ جنگی کا مسئلہ بڑی حد تک حل نہیں ہوا۔ اس صورت حال میں امدادی سرگرمیاں زیادہ مشکل ہو گئی ہیں لیکن مشکلات عملی پہلوؤں سے بڑھ کر ہیں۔
شامی حکومت کا اصرار ہے کہ تمام بین الاقوامی امداد سرکاری ذرائع سے دی جائے، یہاں تک کہ اس متاثرہ علاقے کے لیے بھی جو باغی گروپوں کے قبضے میں ہے۔ یہ ان جھگڑوں کی بازگشت ہے جو جنگ کے عروج پر پیدا ہوئے تھے جب بین الاقوامی ایجنسیوں نے محصور علاقوں میں خوراک اور طبی امداد پہنچانے کی کوشش کی تھی اور اس صورت حال نے امداد دینے والوں کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ اگر وہ حکومت کے ساتھ کام کرنے سے انکار کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ امدادی سامان ان لوگوں تک نہ پہنچ سکے جنہیں اس کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف اگر وہ حکومت کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہیں تو وہ بشار الاسد کے ہاتھ سے نکل جانے والے علاقے دوبارہ تحویل میں لینے کے سلسلے میں مؤثر انداز میں مدد کر سکتے ہیں۔
یہ ایک مخمصہ ہے جو زلزلے کے طویل مدتی اثرات کے بارے میں ایک اور بڑے سوال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیا اس سے بشار الاسد کو اپنا دائرہ اختیار بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے؟ کیوں کہ متاثرہ علاقے مدد کے لیے مرکزی حکومت کی طرف دیکھتے ہیں یا کیا اس کا الٹا اثر ہو سکتا ہے اور یہ صورت حال بشار الاسد کی حالیہ کامیابیوں کو پلٹ سکتی ہے، اگر مرکزی حکام مدد کرنے سے قاصر یا اس کے لیے تیار نہ ہوں؟
امکانات ہیں کہ زلزلہ صدر بشار الاسد کی قیادت میں شامی حکومت کو مضبوط ہونے میں مدد دے گا۔ یہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور صدر بشار الاسد کو بھی قریب لا سکتا ہے کیوں کہ زلزلے کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے کے لیے انہیں مل کر کام کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ یہ صورت حال آگے چل کر شمالی شام کے متنازع علاقوں میں پناہ لینے والے باغیوں کے خلاف مل کر کارروائی میں تبدیل ہو جائے۔ اگرچہ یہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
زیادہ مشکل سوال یہ ہے کہ زلزلے کا اردوغان کے علاقائی ثالث بننے کے عزائم پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ کیا ان کی توجہ تباہی اور اس کے داخلی اور دو طرفہ (شام کے ساتھ) اثرات پر مرکوز ہوگی؟ مثال کے طور پر ان کے پاس دوسرے منصوبوں اور خاص طور پر روس اور یوکرین کے ساتھ سفارتی اقدامات کے لیے وقت اور توانائی کم ہے۔
اردوغان یوکرین اور روس کی جنگ میں دونوں فریقوں کی بات سننے والے ثالثی کے چند خواہش مندوں میں سے ایک ہیں۔ خاص طور پر انہوں نے روس کے لیے راستے کھلے رکھے ہیں۔ اب انہیں اپنے ملک کے جنوب مشرق میں ایک ہنگامی صورت حال اور انتخابی مہم کا سامنا ہے جو اس ہنگامی صورت حال کے نتیجے میں زیادہ مشکل ثابت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بحیرہ اسود اور اس کے آس پاس کے پانیوں میں کشیدگی میں کمی کی کوشش پر توجہ میں کتنی کسر چھوڑی ہوگی؟ کیا اردوغان کو ترکی کو ایک بڑا سفارتی کردار بنانے کا بہترین موقع مل سکتا ہے؟
قصہ مختصر، اس بات کے کوئی آثار نہیں کہ روس یا یوکرین میں سے کسی کو اس وقت سفارت کاری کی زیادہ طلب ہے، لیکن زلزلے کا اثر یہاں بھی ہو سکتا ہے اور یہ ایسا نہیں کہ اس سے یوکرین کو مدد ملے۔
یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی کا دورہ لندن ڈرامائی تھا لیکن اس نے عالمی ذرائع ابلاغ میں زیادہ توجہ حاصل نہیں کی۔ نتیجتاً ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں یوکرین میں جاری لڑائی کو زیادہ توجہ نہ ملے۔ مزید برآں ممکن ہے کہ مزید ملکوں کو امداد کی ضرورت ہو جس کا مطلب ہے کہ اپنے لوگوں کے لیے امداد کے حصول میں یوکرین کو مزید مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یوکرین تشہیر اور اپنا معاملہ مغربی دنیا کے سامنے رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس بات کی افادیت اس صورت میں کم ہو جائے گی کہ اگر مغرب کی توجہ کسی اور جانب ہو جائے۔ روس خود مغربی میڈیا میں اس جنگ کے کم نمایاں ہونے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جنگ کی طرف کم توجہ کسی طرح دونوں فریقوں کو مذاکرات کی طرف لے جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری طرف یہ زلزلہ روس کو ایک موقع فراہم کر سکتا ہے۔ اردوغان اور روس کے صدر ولادی میر پوتن کے درمیان کسی قربت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے باہمی مفادات ہیں اور وہ مشترکہ مقصد تشکیل دے سکتے ہیں۔ پوتن نے اردوغان اور اسد دونوں سے بات کی ہے اور روس نے دونوں ملکوں کو قدرتی آفت کی گھڑی میں امداد بھیجی ہے۔ پوتن نسبتاً کم خرچے پر روس کی ساکھ بہتر بنا سکتے ہیں، ایسے وقت میں جب مغرب میں اس کا کوئی دوست نہیں ہے۔
ترکی کی مشکلات نگورنو کاراباخ کے مسئلے پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازعے کو حل کی کوششوں میں روس کی بھی مدد کر سکتی ہیں۔ ترکی کا حمایت یافتہ آذربائیجان حالیہ مہینوں کے دوران لڑائی میں بالادستی حاصل کر رہا تھا لیکن اب ترکی کو مزید تشویش ناک خدشات لاحق ہو سکتے ہیں۔ نتیجہ سابقہ تعطل کی طرف واپسی ہو سکتا ہے جو آذربائیجان کی فتح کے مقابلے میں روس کے لیے زیادہ موزوں ہوگا۔
ترکی اور شام میں زلزلہ کیا کردار ادا کرے گا، اس کی پیش گوئی کرنا بہت قبل از وقت ہے لیکن کچھ اشارے کرنا قبل از وقت نہیں۔ ترکی کی علاقائی حیثیت پر زلزلے کے اثرات کے پیش نظر اردوغان کمزور ہو سکتے ہیں۔ بشار الاسد توقع سے جلد شام پر اپنی گرفت مضبوط کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے مخالفین کی سرپرستی کرنے والے گروہ کچھ سخت فیصلوں پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ اگر بین الاقوامی توجہ کسی اور طرف منتقل ہو جائے تو روس کو فائدہ اور یوکرین کو نقصان ہو سکتا ہے۔
زلزلے کی قدرتی آفت وسیع تر سیاسی دھاروں کو متاثر کرنے میں منفرد نہیں ہو گی۔ مجھے دسمبر 1988 میں آرمینیا (جو اس وقت سوویت یونین کا ایک حصہ تھا) میں آنے والے دو زلزلے یاد ہیں، جب میخائل گورباچوف سوویت یونین میں اصلاحات کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کر رہے تھے۔ ان زلزلوں میں 60 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔
ماسکو کی امدادی کوششیں ناکافی تھیں اور انہوں نے سوویت یونین کی اقتصادی کمزوری اور اس حد کو جس کے مطابق سوویت ریاستیں کریملن کے کنٹرول سے نکل رہی تھیں، دونوں کو نقاب کر دیا۔ تباہی کے پیمانے نے سوویت یونین کی بہت سی خرابیوں کو بھی اجاگر کیا، جن میں ناقص معیار اور وسیع پیمانے پر پھیلی بدعنوانی بھی شامل ہے۔
ایک اقدام جس کی مثال نہیں ملتی، کے تحت اس وقت کے سوویت وزیر خارجہ ایڈورڈ شیوارڈناڈزے نے غیر ملکی مدد کی درخواست کی اور سوویت سرحدوں کو غیر ملکی امداد کے لیے کھول دیا۔ زلزلے اور جس طرح سے سوویت حکومت نے اس کا جواب دیا، اس نے تب تک زیادہ تر بند ملک کو نہ صرف بیرونی دنیا کے لیے کھول دیا بلکہ سوویت عوام کو بالعموم اور خصوصاً آرمینیائی باشندوں کو یہ بھی دکھایا کہ ان کی سرحدوں سے باہر زیادہ تعاون کرنے والی اور زیادہ دوست دنیا موجود ہے۔
اس طرح آرمینیائی زلزلہ بہت سے عوامل میں سے ایک بن گیا جس نے سوویت کے خاتمے کے عمل کو تیز کیا۔ ترکی اور شام میں آنے والے زلزلے کے سیاسی نتائج، سیاست پر اثر انداز ہونے اور خطے کی تشکیل نو کے معاملے میں کم از کم دور رس ہو سکتے ہیں۔ ان ممالک کے دشمنوں اور اتحادیوں دونوں کو تبدیلی کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے، چاہے یہ ابھی تک واضح نہ ہو کہ یہ تبدیلی کیا ہو سکتی ہے۔
© The Independent