فہم و حکمت اور بصیرت کا معاملہ تو اقتدار کے دنوں میں ہی آشکار ہو گیا تھا۔ ایک آخری بھرم یہ تھا کہ جیسے بھی ہیں، وہ مقبول بہت ہیں۔ کیا یہ بھرم بھی بند مٹھی سے گرتی ریت کی طرح ختم ہو رہا ہے؟
اقتدار کا معاملہ حسن کی طرح ہوتا ہے، یہ سو عیب چھپا لیتا ہے۔ مگر اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان کے فیصلے بتا رہے ہیں کہ بصیرت کی طرح مقبولیت کے سارے فسانے بھی زیب داستان کے سوا کچھ نہ تھے۔
پہلے مرحلے میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے محرومی کو انہوں نے آزادی اور غلامی کا معرکہ بنا دیا۔ ایسا بیانیہ کھڑا کیا گیا کہ لوگ ان سے کارکردگی کا سوال نہ کریں بلکہ سلطان ٹیپو کی طرح ان کی عظمت کے گن گائیں اور ان کی جرات پر لوک گیت لکھے جائیں۔ سوشل میڈیا اس نعرے سے لرز گیا کہ ’ہم کوئی تمہارے غلام ہیں؟‘
ایک لمحے کوگماں گزرا غلامی کا بت ٹوٹ کر بکھرنے کو ہے اور چمن میں وہ دیدہ ور آ گیا ہے جس کے لیے نرگس کو پورے ہزار سال رونا پڑا تھا، لیکن چند ماہ بعد ہی عزیمت کی اس شاہراہ پر یوٹرن آ گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جو کل تک رجز پڑھتے تھے: ’امریکیو، ہم کیا تمہارے غلام ہیں؟‘ اب وہ امریکی سفارت خانے میں حاضر ہو کر حکومت کی شکایتیں لگانے لگے۔ سازش کی جو رووبکار امریکہ کے نام بھیجی گئی تھی وہ یو ٹرن لے کر پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی دہلیز پر جا پہنچی۔
اعلان ہوا کہ ایک مارچ ہو گا جو اسلام آباد پہنچے گا اور حکومت کی چولیں ہلا دے گا۔ کہا کہ اس کی تفصیلات بھی کسی کو نہیں بتائی جائیں گی۔ حتیٰ کہ وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی کو بھی نہیں۔ سارے فیصلے کپتان کرے گا اور کپتان سرپرائز دے گا۔
انجام یہ ہوا کہ توقع سے بہت کم تعداد کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تو کارواں کو راستے میں ہی چھوڑ کر قیادت گھر چلی گئی۔ نہ آنے کا معلوم نہ جانے کا۔ روایت ہے کہ بعض کارکنان کو اسلام آباد کے شہریوں نے چندہ جمع کر کے کر کرایہ تھمایا اور گھروں کو رخصت کیا۔
اسمبلیوں سے استعفے دیے گئے اور اس شان سے دیے کہ کہ گویا لوٹ کر اس ایوان میں آ نا ہی نہیں۔ چند ماہ گزرے تو یہی مستعفی اراکین سپیکر کے گھر کے باہر درخواست لیے کھڑے تھے کہ ازرہ کرم ہمارے استعفے قبول نہ کیے جائیں۔ سپیکر نے ملاقات تک گوارا نہ کی تو عدالت جا پہنچے۔
اعلان ہوا ہم لاہور سے نکلیں گے، ڈی چوک پہنچیں گے اور سارا ملک بند کر دیں گے۔ اپنی ہی حکومت میں دو دن سڑکیں بند کے لوگوں کو عذاب میں ڈالنے کے بعد اچانک ایسی کایا پلٹ ہوئی کہ دھیمے سروں میں فیض آباد کے اس پار ایک جلسہ نما منعقد ہوا اور قائدین ایک بار پھر گھروں کو لوٹ گئے۔ جلال جمال میں یوں بدلا کہ سٹیج کی جگہ کا تعین بھی ایس ایچ او کی ہدایت کے مطابق کرنا پڑا۔
پھر کہا اب تو آخری معرکہ ہے۔ اب جیل بھرو تحریک چلائی جائے گی اور وطن عزیز کی جیلوں میں جگہ کم پڑ جائے گی۔ ابھی اس اعلان کی بازگشت ماحول کو گرما ہی رہی تھی کہ جناب عمران خان خود ضمانت کی التجا تھامے ہائی کورٹ جا پہنچے کہ جناب گرفتاری کے لیے کارکنان ہیں نا، مجھے اس سے بچایا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیل بھرو تحریک کا عالم یہ ہے کہ پولیس چوکوں اور چوراہوں میں اور ایم این اے صاحبان کے گھروں کے باہر اعلان کرتی پھر رہی ہے کہ ’عزیز ہم وطنو! کسی نے گرفتاری دینی ہے تو ہم گاڑی سمیت حاضر ہیں،‘ لیکن کوئی باہر نہیں نکل رہا۔ پولیس تشدد تو کرتی تھی، یہ پہلی سیاسی تحریک ہے کہ پولیس کو مذاق سوجھ رہا ہے اور وہ گلی گلی اٹکھیلیاں کرتی پھر رہی ہے۔
جن چند رہنماؤں نے ’تاکہ سند رہے‘ کے اصول پر گرفتاری دی، ابھی 24 گھنٹے نہیں گزرے کہ ان کی رہائی کی درخواستیں تھامے عدالتوں سے رجوع کر لیا گیا کہ ہم نے کل جیل بھرو تحریک شروع کی تھی، اس لیے آج ہمیں جیل خالی کرنے اور گھر جانے کی اجازت دی جائے۔ ہم گرفتار ی دینے نہیں آئے تھے ہم تو علامتی گرفتاری دینے آئے تھے۔
اس سارے سفر میں عمران خان نے جو فیصلے کیے ان کا تحریک انصاف کو کیا فائدہ ہوا؟ معلوم یہ ہو رہا ہے کہ اس غیر ضروری اور غیر حکیمانہ مہم جوئی نے عمران خان کی مقبولیت کا طلسم بھی توڑ دیا ہے۔ لوگ ان کے پہلے مارچ کے لیے نکلے نہ دوسرے کے لیے۔ نہ ہی لوگوں نے جیل بھرو تحریک کا ایندھن بننا گوارا کیا۔ وہ غیر مقبول ہو چکے یا ان کا معاملہ بھی وہی ہے کہ ان کی اصل طاقت زمین پر نہیں، سوشل میڈیا پر ہے؟
سوال یہ ہے کہ وہ ساری مقبولیت کیا ہوئی؟ یہ مقبولیت اگرایک حقیقت تھی تو ان کی کال پر لوگ نکلے کیوں نہیں؟
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائہ پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔