پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دو شہروں میں ’جیل بھرو تحریک‘ کا آغاز ہو گیا ہے اور پارٹی سے منسلک یا پارٹی کے حامی نوجوان بھی اس تحریک کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔
تحریک انصاف نے بدھ کو لاہور چیئرنگ کراس سے اپنی جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مال روڈ پر کچھ عرصہ سے دفعہ 144 نافذ کر رکھی ہے، اور اسی کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
دفعہ 144: ’ضابطہ فوجداری (CrPC) کی دفعہ 144 ضلعی انتظامیہ کو عوامی مفاد میں ایسے احکامات جاری کرنے کا اختیار دیتی ہے جو ایک مخصوص مدت کے لیے کسی سرگرمی پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ اس طرح کی پابندی پولیس کی طرف سے نافذ کی جاتی ہے جو پابندی کی خلاف ورزی پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 188 کے تحت مقدمات درج کرتی ہے۔ دفعہ 188 میں زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاتی ہیں۔‘
تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں نے بھی یہی بتایا کہ چونکہ مال روڈ پر دفعہ 144 نافذ ہے اس لیے اس دفعہ کے تحت پولیس کے پاس انہیں گرفتار کرنے کا جواز موجود ہے۔
144 کے تحت گرفتاری، مقدمہ درج ہونے اور عدالت میں جرم ثابت ہونے سے نوجوانوں کو مستقبل میں کیا نقصان ہو سکتا ہے، اس حوالے سے ایڈووکیٹ زین علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’دفعہ 144 کسی بھی جگہ پر آپ کے غیر قانونی اجتماع سے روکتی ہے اور اس کی سزا دو سال تک ہو سکتی ہے۔‘
زین علی نے مزید سمجھاتے ہوئے بتایا: ’ایک ایسا اجتماع جس سے قانون کے نفاذ کو نقصان ہو سکتا ہو، یا وہ ماحول کو خراب کر سکتا ہے، اس میں سزا تو دو سال ہے لیکن ایف آئی آر ہونے کے بعد پولیس آپ کو کریکٹر سرٹیفیکٹ نہیں دے سکتی۔
جب آپ کسی سرکاری نوکری کے حصول کے لیے جاتے ہیں تو آپ کو ایک حلف نامہ بھر کر دینا ہوتا ہے جس میں آپ سے مختلف سوالات پوچھے جاتے ہیں اور آپ کو ان کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا ہوتا ہے۔ جیسے کہ آپ کے خلاف کوئی کسی عدالت میں کوئی کرمنل مقدمہ تو نہیں چل رہا، یا آپ کے خلاف کوئی ایف آئی آر تو درج نہیں ہوئی ہے؟ ایسے میں اگر آپ کے خلاف ایسا کچھ ہوا تھا تو اس کی پوری تفصیلات اس فارم میں بتانی پڑتی ہیں۔ اگر آپ یہ معلومات چھپا لیتے ہیں تو وہ بعد میں سامنے آ جاتی ہیں جس سے آپ کی نوکری چلی جاتی ہے۔‘
آن لائن مجرمانہ ریکارڈ
زین نے مزید بتایا: پولیس میں لوگوں کے کرمنل ریکارڈز کا ٹریک رکھنے کا پورا ایک سیل بنا ہوا ہے جسے سی آر او کہتے ہیں۔ یہاں شناختی کارڈ نمبر دیا جائے تو آپ کا پورا کرمنل ریکارڈ سامنے آ جاتا ہے۔ اب آپ کے خلاف دفعہ 144 یا دفعہ 302 کی ایف آءی ہوئی ہو آپ کا کرمنل ریکارڈ تو بن گیا۔ اس کا نقصان ایک نوجوان کو اس کا مستقبل خراب ہونے کی صورت میں ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں ’عدالتوں میں کیس چلیں گے وہاں سے سزا بھی ہو سکتی ہے۔ جب کسی عمل پر کوئی قانون نافذ ہو جاتا ہے اور حکومت اس عمل سے منع کر دیتی ہے تو پھر اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح اگر آپ نے ملک سے باہر جانا ہے تو اس میں آپ کو ایک کلیئرنس سرٹیفیکیٹ جمع کروانا ہوتا ہے جو پولیس فراہم کرتی ہے۔ اگر آپ کا کرمنل ریکارڈ بنا ہوا ہے تو اس صورت میں پولیس آپ کو کلیئرنس سرٹیفیکیٹ نہیں دے گی۔
زین کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں ویسے تو سزائیں کم ہو ہوتی ہیں اور اگر اس کیس میں آپ بری بھی ہو جاتے ہیں تب بھی آپ کے خلاف ایف آئی آر کٹی جس کا ریکارڈ بنا اور اس کا نقصان مستقبل میں ہوتا ہی ہے۔
دوسری طرف ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمارا پراسیکیوشن سسٹم کمزور ہے۔ سٹیٹ کی مدعیت میں جو ایف آئی آر درج ہوتی ہیں وہ لاوارث ہوتی ہیں۔ ریاست ان کے چالان ہی جمع نہیں کرواتی یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ایسے مقدمات میں سزائیں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔‘
کیا کارکنوں کو جیل جانے کے نقصان کا اندازہ ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو نے بھی پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کارکن سے جاننے کی کوشش کی کہ وہ کیوں اس تحریک کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور کیا جیل جانے کے نقصانات سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکریٹری31 سالہ گلریز اقبال جیل بھرو تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے متحرک ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے ماس کمیونی کیشن میں بھی ایم ایس سی کر رکھی ہے۔
گلریز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوری حکومت کو کبھی چلنے نہیں دیا گیا۔ ’پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ بھی یہی ہوا اور عمران خان کو حکومت سے نکال کر گھر بھیج دیا گیا۔ تب سے ہم لوگ سڑکوں پر ہی ہیں۔ جیل بھرو تحریک کے پیچھے ہمارا مطالبہ آزادانہ، صاف و شفاف انتخابات ہیں۔‘
گلریز نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے یوتھ ونگ نے کم از کم پانچ ہزار نوجوانوں کی رجسٹریشن مکمل کی ہے جو جیل بھرو تحریک کا حصہ بنے ہیں اور رضاکارانہ طور پر جیل جانے کو تیار ہیں۔ ’ہم مرحلہ وار اپنی گرفتاریاں پیش کریں گے اور مطالبہ یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح انتخابات کی تاریخ ملے۔‘
گلریز کا کہنا ہے کہ جیسے پاکستان کی تحریک میں قائد اعظم کے ساتھ اس وقت کے نوجوان شامل تھے ہم اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تحریک کا حصہ بنے ہیں اور مقصد پاکستان کی بہتری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بطور ایک نوجوان وہ پاکستان کے معاشی حالات، انصاف کے نظام اور قانون کے نفاذ کے نظام سے بہت مایوس ہیں۔ ’مجموعی طور پر پاکستان کے نوجوان اس وقت ملک کے حالات سے خوش نہیں ہیں۔ ہم جب بیٹھتے ہیں بات کرتے ہیں تو ہمیں تکلیف بھی ہوتی ہے اور غصہ بھی آتا ہے۔ ہمارے لیے عمران خان امید کی کرن ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے: ’ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں۔ یا تو ہم اپنے سسٹم کو بدلنے کے لیے جدوجہد کریں، نوجوانوں کو مضبوط کریں اور آزادانہ اور صاف شفاف انتخابات کے لیے آواز اٹھائیں اور یا پھر ہم خاموش رہیں اور ہم جیسے پڑھے لکھے لوگ اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور ملک چلے جائیں اور وہاں اپنی ایک اچھی زندگی کا آغاز کریں۔‘
انہوں نے کہا، ’ہم نے سسٹم کو بدلنے کے لیے اس پارٹی کے لیے اپنا لڑکپن، جوانی سب قربان کیا ہے اس لیے ہم تو پر جوش ہیں۔ ہمیں کوئی ٹکٹ یا عہدہ نہیں چاہیے بلکہ ہم سوچتے ہیں کہ جب ہم بڑھاپے میں پہنچیں تو ہمیں اس بات کا افسوس نہ ہو کہ ہم نے اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا تھا۔‘
گلریز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’لاہور میں بدھ کو شروع ہونے والی جیل بھرو تحریک میں وہ بھی شامل ہوئے۔ انہیں اور ان کے کچھ ساتھیوں کو پولیس کوٹ لکھپت جیل کے کر گئی لیکن جیل کے باہر کا کر چھوڑ دیا جبکہ ان پر کوئی ایف آئی آر بھی درج نہیں کی۔‘
گلریز نے بتایا کہ ان کے خاندان کو ان کے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں: ’ہم سیاسی لوگ ہیں۔ گذشتہ چودہ، پندرہ برس سے سیاست کر رہے ہیں۔ میں نے طالب علمی کے زمانے سے میں سیاست کر رہا ہوں، ہم پر پہلے بھی مقدمات ہوئے، جیلیں کاٹیں، لاٹھی چارج برداشت کیے اس لیے میرا خاندان پہلے سے ذہنی طور پر تیار ہے اور مجھے ان کا پورا تعاون حاصل ہے۔‘