صوبہ خیبرپختونخوا میں کلاس فور کے ملازمین میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ ریفارمز ایکٹ (ایم ٹی آئی آر اے) کے خلاف پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ (ایل آر ایچ) میں گذشتہ پانچ روز سے احتجاج کر رہے ہیں۔
صوبے بھر کے ملازمین نہ صرف ایم ٹی آئی آر اے کا خاتمہ بلکہ اپنے مطالبات پر بھی عمل درآمد کروانا چاہتے ہیں۔
ملازمین نے منگل کو ایل آر ایچ سے ایک ریلی نکال کر صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی واک کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاحال کسی نے ان کے مطالبات ماننے کی حامی نہیں بھری۔
صوبائی پیرامیڈیکل درجہ چہارم ایسوسی ایشن کے لیگل ایڈوائزر اور چیئرمین محمد وارث خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ احتجاج لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں تب تک جاری رہے گا جب تک ان کے مطالبات مان نہیں لیے جاتے۔
احتجاج کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات میں ’مرکز کی طرح ایم ٹی آئی ایکٹ کا خاتمہ، پرائیویٹ مینجمنٹ کا خاتمہ، پرانا سسٹم بحال کرنا، برطرف ملازمین کی بحالی، بلاجواز ٹرانسفر شدہ کلاس فور ملازمین کی اپنے ہسپتالوں میں واپسی، کلاس فور ملازمین کا سن کوٹہ بحال کرنا، تعلیم یافتہ ملازمین کو چالیس فیصد کے حساب سے پروموشن کا حق دینا، فنڈ میں تبدیلی سے پنشن کا حق دینا اور صحت کارڈ میں دس فیصد شیئر دینا‘ شامل ہیں۔
ایسی خبریں بھی گردش میں ہیں کہ نگران حکومت نے خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی ایکٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس کا مسودہ تیار ہو رہا ہے۔ تاہم خیبرپختونخوا کی نگران حکومت میں وزیراعلیٰ کے مشیرصحت پروفیسرعابد جمیل نے واضح کیا ہے کہ ان کی حکومت کا ایم ٹی آئی آر اے 2015 کے خاتمے یا اس میں ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں۔
دوسری جانب قانون کہتا ہے کہ اس ایکٹ کو ختم کرنے کا اختیار صوبائی اسمبلی رکھتی ہے، لہذا اس مد میں گورنر آرڈیننس ایک عارضی قدم ہوگا۔
ڈاکٹرز یونینز ہوں یا کلاس فور ملازمین کی یونین، ایم ٹی آئی ایکٹ میں ایسا کیا برا ہے، جس کو لے کر وہ اتنے پریشان ہیں اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں؟
درجہ چہارم ملازمین کی یونین کے چیئرمین وارث خان کا کہنا ہے: ’ناصرف بلاجواز سیاسی بنیادوں پر برطرفیاں اور تبادلے ہوتے ہیں، بلکہ معمولی بات پر ان سے انتقام لینا ایم ٹی آئی ایکٹ میں کافی آسان ہوگیا ہے۔
’ایم ٹی آئی ایکٹ میں چونکہ بورڈ کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں، لہذا کب کس کو برطرف یا تبادلہ کریں، کوئی پوچھنےوالا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بیماری یا ضروری کام کی وجہ سے چھٹی کرلے تو اس کی آڑ میں ہماری تنخواہ کاٹ دی جاتی ہے یا کوئی اور انتقام لیاجاتا ہے۔ 35 سال ملازمت کرنے والے ملازمین سے ایم ٹی آئی ایکٹ میں ان کے پینشن کا حق چھین لیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سن کوٹہ بھی ختم کردیا گیا ہے، جس میں والد کی ریٹائرمنٹ پر بیٹے کو ملازمت دی جاتی تھی۔ ہم پرانے نظام کی بحالی چاہتے ہیں۔‘
ایم ٹی آئی آرڈیننس کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کا موقف
پاکستان تحریک انصاف نے جب ایم ٹی آئی آرڈیننس پر کام شروع کیا اور 2015 میں اس کے پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز ہوا تو سرکاری ہسپتالوں میں اس ایکٹ کے مخالف گروہوں نے کہا کہ ہسپتالوں کی نجکاری ہو رہی ہے اور اس کا بوجھ مریضوں پر پڑے گا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے 2019 میں ایک موقع پر اس کے جواب میں کہا تھا کہ ایم ٹی آئی ایکٹ یا آرڈیننس کا مقصد سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کرنا نہیں بلکہ انتظامی امور اور طبی سہولیات کی فراہمی میں اصلاحات لا کر سرکاری ہسپتالوں کی اصلاح کرنا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے مطابق، چونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی اضلاع کو کوئی قابل قدر فائدہ نہیں پہنچ سکا خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں جہاں کوئی طبی سہولیات میسر نہیں ہوتیں، ڈاکٹروں کی اکثریت بڑے شہروں میں رہنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس کے برعکس دیہاتی اور پسماندہ علاقوں کے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں کام کرنے کے لیے کوئی دلچسپی نہیں اس وجہ سے پورے صوبہ کے ضلعی ہسپتال ڈاکٹروں کے بغیر چل رہے تھے۔
پی ٹی آئی کا موقف رہا ہے کہ اس نے 2013 کے بعد اس نظام کو بدلنے کا فیصلہ کیا اور عمران خان کے ایک کزن ڈاکٹر نوشیروان برکی، صحت اور اصلاحات کے لیے ’رضاکارانہ‘ طور پر امریکہ سے تشریف لائے۔
تاہم ان کے خلاف ڈاکٹر تنظیموں نے احتجاج کیا اور ان پر زیادہ تنخواہ لینے، سفر پر پیسہ ضائع کرنے، فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام اورحکومتی خزانے کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات لگائے۔
لیکن پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ دراصل انہوں نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا اور انہیں صرف اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ ’عمران خان کے کزن ہیں۔‘
پی ٹی آئی کے مطابق صحت کے شعبے کی مکمل خودمختاری اور سیاسی مداخلت کے خاتمے پر یقین کی وجہ سے ہی ایم ٹی آئی کا نفاذ کیا گیا، تاہم اس پر شدید تنقید سامنے آیا، یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے سابق وزیر صحت حشام انعام اللہ خان اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے درمیان تلخ کلامی ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔
ڈاکٹروں کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے وزیر صحت اور نوشیروان برکی کی مخالفت ایم ٹی آئی کے متعارف ہونے سے لے کر موجودہ وقت تک جاری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایم ٹی آئی سے کون متاثر ہوا؟‘
اس تمام صورت حال پر انڈپینڈنٹ اردو نے سابق وزیر صحت تیمور جھگڑا سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ کیا ایم ٹی آئی ایکٹ عوام دوست ہے اور کیا یہ ان کے خیال میں ایک کامیاب ماڈل ہے، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایم ٹی آئی ایکٹ عوام دوست تھا اور ہے۔
’ایم ٹی آئی ایکٹ وی آئی پی اور ہیلتھ یونین دوست نہیں تھا۔ جو لوگ سسٹم میں کام کرنا چاہتے ہیں اور اس میں مزید ترقی ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ایم ٹی آئی ایکٹ بنا ہے۔ افسوس کے ساتھ ہمارے ملک میں کرپٹ گروہ پورے سسٹم پر قبضہ کرلیتے ہیں، ایم ٹی آئی نے یہ ہونے نہیں دیا اور اسی لیے یہ تمام عناصر اس کے خلاف نکلے ہیں۔‘
سابق وزیر صحت نے بتایا کہ ایم ٹی آئی ایکٹ نے مینجمنٹ کو خود فیصلے کرنے کا اختیار دیا، جس سے مریض اور ہسپتال کا فائدہ ہوا۔
’پھر بھی اس قدر اچھے نظام سے کون متاثرہوتا ہے؟ سینئر افسر۔ جن کو ایم ٹی آئی سے قبل وی آئی پی ٹریٹمنٹ ملتی تھی۔ جو سینئر ڈاکٹر ہسپتال میں اپنی مرضی کا وقت گزار رہے تھے، اپنی پرائیویٹ کلینک چلاتے تھے۔ اب ان کا احتساب ہونے لگا ہے۔ لہذا جو لوگ پرانے سسٹم کا فائدہ اٹھا رہے تھے وہ اب ایم ٹی آئی کے حق میں کیسے ہوسکتے ہیں؟‘
تیمور جھگڑا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نئے ڈاکٹرز بھی اس لیے مخالفت کررہے ہیں کہ حکومت نے انہیں ہسپتال کے ملازمین بنانا چاہا۔
’چونکہ ہسپتال میں تو ان کا احتساب ہوتا ہے، اس لیے وہ بھی اس نئے نظام کے مخالف ہوگئے۔اور یہ زیادہ تر سیاسی ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ آپ دنیا کے کامیاب صحت کے نظام دیکھیں اور موازنہ کریں کہ وہ کیسے چلتے ہیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے سابق وزیر صحت کا مزید کہنا تھا کہ ایم ٹی آئی ایکٹ کے کامیاب ہونے کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ کرک اور کوہاٹ سے حزب اختلاف کے ارکان صوبائی اسمبلی نے دیگر ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی سسٹم کے لیے درخواست کی۔
’ایم ٹی آئی ایکٹ کا خاتمہ آسان نہیں‘
جب سابق وزیر صحت سے انڈپینڈنٹ اردو نے سوال کیا کہ ایم ٹی آئی ایکٹ ختم ہونے سے عوام اور ڈاکٹروں کو کیا نقصان ہوگا، تو جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایم ٹی آئی ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر کوئی ایسی کوشش کرے گا تو وہ فوراً ہی عدالت میں چیلنج ہوجائےگا۔
’یاد رکھیں کہ نگران حکومت کا صرف ایک ہی کام ہے الیکشن کرنا۔ وہ اس طرح کے فیصلے نہیں دے سکتی۔ یہ الیکشن ایکٹ 2017 میں لکھا گیا ہے۔ پھر بھی اگر کبھی اسمبلی کی دوتہائی اکثریت سے اس ایکٹ کا خاتمہ ہوا تو بہت نقصان ہوگا، جیساکہ نان ایم ٹی آئی ہسپتالوں کو دیکھ لیں، جہاں سرکاری کنٹرول ہوتا ہے وہ اتنا ہی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ انگریز نے نظام ایسا بنایا ہے کہ یہ عوام کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں بلکہ سرکاری ملازم کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔‘
الزام ہے کہ ایم ٹی آئی ایکٹ میں شامل ڈائریکٹرز بغیر کسی جواز کے سیاسی بنیادوں پر برطرفی اور تبادلے کرتے ہیں، اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہ الزام بے بنیاد ہے اور اس کے پیچھے وہی عناصر کارفرما ہیں جن کو پرانے نظام سے فائدہ پہنچ رہا تھا۔
’تبادلے اور برطرفی بےبنیاد نہیں ہوتی۔ سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لیے ہی چیک اور بیلنس رکھا گیا، سختی برتی گئی، اور غیرضروری اخراجات ختم کیے گئے۔ سیاسی مداخلت کو ختم کرنے کے لیے ہی ایم ٹی آئی متعارف کرایا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں ڈاکٹرزاور نان ڈاکٹرز سب شامل ہیں، ہر بورڈ میں ایک خاتون کو بھی لازماً شامل کیا گیا۔‘
اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں بھی ایم ٹی آئی ایکٹ کے خلاف بہت عرصہ احتجاج ہوتا رہا اور بالآخراس ایکٹ کو ختم کرکے دوبارہ پرانا سسٹم بحال کیا گیا، جس کے بعد دیگر ایسے سرکاری ہسپتالوں میں اس کی مخالفت کرنے والوں کو حوصلہ ملا اور اب وہ بھی مرکز کی مثال دینے لگے ہیں۔