پشاور یوینورسٹی میں پانچ مارچ کو سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں سکیورٹی سپروائزر کے قتل کے بعد یونیورسٹی کے اساتذہ نے کل سے تعلیمی سرگرمیوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے یونیورسٹی میں تعینات گارڈز کے تمام ٹیسٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کی آج ہونے والی تازہ ملاقات کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا، جس کے مطابق یونیورسٹی میں نجی کمپنی کے محافظوں کو ہٹا کر یونیورسٹی خود نئے سکیورٹی گارڈز رکھنے کی مجاز ہو گی۔
پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میٹنگ میں یہ بھی طے پایا ہے کہ موجودہ اور نئے آنے والے تمام سکیورٹی گارڈز کا فوری بنیادوں پر ایک نفسیاتی ٹسٹ لیا جائے گا جس کے لیے یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد عزیر نے بتایا کہ ’19 فروری کو اسلامیہ کالج کے واقعے جس کے نتیجے میں ایک سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں ایک استاد کا قتل ہوا تھا، پیوٹا نے یہ خدشات ظاہر کیے تھے کہ ایسے واقعات دوبارہ بھی جنم لے سکتے ہیں لہذا تمام محافظوں کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے۔‘
ڈاکٹر محمد عزیر نے کہا کہ ’طلبہ اور اساتذہ کی جانب سے بارہا اس معاملے پر آواز اٹھانے کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کی بات کا نوٹس نہیں لیا اور دوبارہ سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں ہی قتل کا دوسرا واقعہ پیش آیا۔‘
’اگر اس وقت نوٹس لیا جاتا تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ اسی لیے ہم نے کل سے کلاسز کی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے تاکہ یونیورسٹی انتظامیہ پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ سکیورٹی گارڈز کے معاملے پر سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور یونیورسٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن ایمل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جامعہ پشاور کے تاریخی حقائق کے مطابق پرانے وقتوں میں محافظ رکھنے کا طریقہ کار یکسر مختلف تھا جو کہ بعد ازاں معاشی بحران کے بعد ایک مختلف شکل اختیار کر گیا۔‘
’جامعہ پشاور کی تاریخ کے مطابق یونیورسٹی ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کو سکیورٹی گارڈ کی ذمہ داری سونپتی تھی۔ جن کی ہرسال اسلحہ چلانے اور نفسیاتی تربیت کروائی جاتی تھی۔ پھر یونیورسٹی کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور طے ہوا کہ کسی بھی سکیورٹی گارڈ کا دورانیہ ملازمت تین سال ہو گا۔‘
ایمل خان نے بتایا کہ ’آج وائس چانسلر کے ساتھ میٹنگ میں موجودہ حالات پر بات ہوئی تو اس میں نجی کمپنیوں کے سکیورٹی گارڈز رکھنے کے رواج کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ متفقہ طور پر نئے اور پروفیشنل سکیورٹی گارڈز رکھنے پر اتفاق ہوا۔‘
پشاور یونیورسٹی کے واقعے کے حوالے سے تھانہ کیمپس کے ایس ایچ او داؤد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ روز کے واقعے کے ملزم کی آج عدالت میں پیشی ہوئی، تاہم ابھی تک عدالت نے ہمیں ملزم کی کسٹڈی نہیں دی کہ ہم ان سے پوچھ گچھ کر سکیں۔‘
انہوں نے ایف آئی آر کی جو نقل انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شیئر کی اس میں مقتول کے بیٹے مدعی اکبر ثقلین نے لکھا ہے کہ جس وقت وہ ’یونیورسٹی میں ایک مقام پر والد کا انتظار کر رہے تھے اس وقت میں نے فائرنگ کی آواز سنی اور جس کے کچھ ہی لمحوں بعد میں نے ملزم کو گیٹ سے باہر بھاگتے ہوئے دیکھا۔‘
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سوشل ورک کے لیکچرر ڈاکٹر عمران ساجد نے بتایا کہ ’پشاور یونیورسٹی اگرچہ صوبے کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی ہے تاہم اس قدر بڑی یونیورسٹی میں بعض نہایت توجہ طلب نکات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔‘