کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نے بولان میڈیکل کالج میں مزدوری اور پھر سرجن بننے تک کا سفر طے کر کے ایک مثال قائم کردی ہے۔
ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نے بولان میڈیکل کالج کی تعمیر میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کیا اور اسی درس گاہ سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور پھر سرجری کے میدان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بطور سرجن بھی اسی کالج اور ہسپتال میں خدمات سر انجام دیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نے بتایا کہ انہوں نے 1981 میں بولان میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کے دوران انہیں اخراجات پورے کرنے کی غرض سے پارٹ ٹائم ملازمت کی تلاش تھی اور کسی نے بتایا کہ ان کے اپنے ہی کالج کی عمارت میں کام چل رہا ہے اور وہاں لوگوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا: ’میں وہاں گیا اور ٹھیکے دار سے نوکری کے لیے پوچھا اور مجھے رات کی شفٹ میں 30 روپے دیہاڑی کے حساب سے ملازمت مل گئی۔‘
ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نے ٹھیکے دار کو نہیں بتایا کہ وہ اسی کالج میں ایم بی بی ایس کے طالب علم ہیں۔
’بلوچستان کے گمنام ہیرو‘ کہلائے جانے والے ڈاکٹر اعظم بنگلزئی کہتے ہیں کہ وہ آج بھی جب اس عمارت کی طرف جاتے ہیں، جس میں انہوں نے مزدوری کی تھی تو ماضی کی یادوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
انہیں اب بھی یاد ہے کہ سردیوں کی ایک رات میں بجری کی ریڑھی گر جانے کی وجہ سے انہیں اس نوکری سے فارغ بھی کر دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر اعظم کو ٹھیکے دار کے الفاظ اب بھی یاد ہیں، جو اس نے بجری کی ریڑھی گرنے پر انہیں کہے تھے: ’تم چھوڑ دو، کام تمہیں کام نہیں آتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی منت سماجت کے باوجود بھی ٹھیکے دار نے انہیں آدھی دیہاڑی ادا کر کے فارغ کر دیا تھا۔
اور پھر قسمت کا کرنا ایسا ہوا ہے کہ ژوب سے تعلق رکھنے والا وہ ٹھیکے دار کئی برس گزرنے کے بعد بیمار ہوا اور علاج کی خاطر ڈاکٹر اعظم بنگلزئی کے پاس آیا۔
ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ’میری بولان میڈیکل کالج میں او پی ڈی چل رہی تھی کہ اچانک ایک بوڑھا مریض اپنے بیٹے کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ جیسے ہی میں نے دیکھا تو میں ماضی میں چلا گیا اور سوچا کہ اس شخص کو میں نے کہیں دیکھا ہے اور ذہن پر زور ڈالنے پر یاد آیا کہ یہ تو وہی ٹھیکے دار ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اس وقت میں بڑا جذباتی ہوگیا اور جب میں نے ان کا نام لیا تو انہوں نے کہا کہ ’آپ مجھے جانتے ہیں؟‘ میں نے کہا: ’جی! میرا آپ سے گہرا رشتہ ہے۔‘
پھر میں نے خود اس ٹھیکے دار کی سرجری کی لیکن وہ بار بار مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ ’ڈاکٹر صاحب میرے اوپر اتنی مہربانی آپ نے کیوں کی؟‘ تو میں نے کہا کہ ’آپ کا بہت احسان ہے مجھ پر، میں آپ کا احسان چکانا چاہ رہا ہوں کیونکہ آپ نے برے دنوں میں میرا ساتھ دیا تھا۔‘
بقول ڈاکٹر اعظم: ’اس نے مجھے سے پوچھا کہ ’آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں ٹھیکے دار ہوں؟‘ میں نے کہا: ’یاد ہے آپ کے ساتھ ایک غریب سا لڑکا ریڑھی بجری کا کام کرتا تھا۔ وہ لڑکا میں تھا جس نے آپ کے ساتھ بطور مزدور کام کیا اور اسی مزدوری کے بعد میں نے اسی کالج میں اپنی پڑھائی جاری رکھی اور الحمد اللہ آج میں اس ہسپتال میں بطور سرجن اپنے فرائض ادا کر رہا ہوں۔‘