خواتین کے عالمی دن پر پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ریلیوں، تقریبات اور سیمنارز کےذریعے خواتین کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا اور ان کے مسائل اجاگر کیے گئے۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگاروں نے اپنے علاقوں سے نکلنے والی ریلیوں کا احوال بتایا۔
وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں نامہ نگار قرۃالعین شیرازی کے مطابق خواتین کا عالمی دن کچھ مختلف انداز میں منایا گیا جہاں خواتین نے دوسرے علاقوں کی خواتین کے حقوق پر بات بھی کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جناح ایوینو پر منعقد کی گئی ریلی میں بڑی تعداد میں جمع ہو کر خواتین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے حقوق خصوصا بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مذہب اور آئین میں دیے گئے حقوق فراہم کیے جانے چاہییں۔
نامہ نگار مونا خان کے مطابق اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر افغان مہاجر خواتین نے اس دن کے موقع پر اپنے حقوق اور طالبان کی پابندیوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ تعلیم ان کا بنیادی حق جس سے ان کو افغانستان میں محروم رکھا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے انیلا خالد نے رپورٹ کیا کہ پشاور پریس کلب میں آج آٹھ مارچ کے حوالے سے ایک تقریب ہوئی جس میں نوجوان مرد وخواتین نے حصہ لیا۔
اس تقریب کو منعقد کرنے والی تنظیم ’گرو اپ‘ کے صدر عرفان آفریدی نے بتایا کہ پریس کلب میں جو پینٹنگز انہوں نے سجائی ہیں وہ دراصل پورے صوبے سے کالج و یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس نے بنائی ہیں ’لیکن ان میں 98 فیصد پینٹنگز بنانے میں خواتین نے حصہ لیا ہے۔‘
نامہ نگار فاطمہ علی کے مطابق لاہور میں بھی خواتین کے عالمی دن پر عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ مارچ میں شرکت کے لیے خواتین شملہ پہاڑی کے قریب جمع ہوئیں اور وہاں سے فلیٹیز ہوٹل تک مارچ کیا۔
اس بار خواتین کی مارچ میں مردوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ مارچ کی شرکا نے ایران اور افغانستان کی خواتین کے حقوق کے لیے بھی زن، زندگی اور آزادی کے نعرے بھی بلند کیے۔
مارچ میں شریک ایک پرفارمر اور پرفارمنگ آرٹ کے استاد ابوزر مادھو بھی موجود تھے جنہوں خواجہ غلام فرید کی ایک کافی پر پرفارم بھی کیا۔
ابوزر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس لیے اس مارچ میں شامل ہوئے ہیں کیونکہ وہ ہر زر روح کی آزادی کے حق میں ہیں۔