سندھ کی صوبائی کابینہ نے دریائے سندھ کے علاقے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس، رینجرز اور فوج کے مشترکہ آپریشن کا اعلان کرتے ہوئے جدید اسلحے کی خریداری کے لیے دو ارب 79 کروڑ روپے کی منظوری دے دی۔
یہ فیصلہ جمعرات کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے زیر صدارت وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس میں تفصیلی مشاورت کے بعد دریائے سندھ کے کچے میں موجود ڈاکوؤں کا صفایا کرنے کے لیے تمام فورسز کے ساتھ ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت فیصلہ کن آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ہمیشہ آپریشن شروع ہونے کے بعد ڈاکو سندھ سے پنجاب یا بلوچستان فرار ہوجاتے ہیں اس لیے اس آپریشن میں سندھ کے ساتھ پنجاب اور بلوچستان کی پولیس، رینجرز اور پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’کچے کے ڈاکو سندھ میں امن امان کے لیے بڑے عرصے سے ایک چیلینج بنے ہوئے ہیں، جن کا خاتمہ لازمی ہو گیا ہے۔ اس لیے اس بار صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک فیصلہ کن آپریشن کیا جائے جس میں پولیس کے ساتھ رینجرز اور پاکستانی فوج بھی شامل ہو۔‘
ان کے مطابق 'آپریشن کے لیے فوج کے زیراستعمال جدید اسلحے کی خریداری کے لیے ایک بڑی رقم بھی کابینہ نے منظور کی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ میں آپریشن کی صورت میں ڈاکو پنجاب یا بلوچستان فرار ہو جاتے ہیں، اس لیے تینوں صوبوں سے ایک ساتھ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس بار کچے سے ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔‘
اجلاس کے دوران محکمہ داخلہ اور انسپیکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) سندھ غلام نبی میمن نے کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومتی فیصلے کے مطابق سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے کچے کے علاقے میں مشترکہ آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے لیے جدید ترین فیلڈ ہتھیاروں اور سرویلنس ایکوپمنٹ/نگرانی کے آلات کی خریداری کی جائے گی۔‘
آئی جی پی سندھ نے کابینہ کو بتایا کہ ’جدید ترین ہتھیاروں کی مدد سے ضلع کشمور، شکارپور اور گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں موجود سرگرم عادی مجرموں اور ان کی گروہوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہتھیاروں اور نگرانی کےآلات کی ضرورت ہے۔‘
اجلاس کو بتایا گیا کہ ’مشترکہ آپریشن شروع کرنے کے لیے جدید ملٹری گریڈ ہتھیاروں کی خریداری کے حوالے سے دو ارب 79 کروڑ 60 لاکھ روپے درکار ہیں۔ جس سے تین صوبوں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کی پولیس رینجرز اور پاکستان فوج کے تعاون سے آپریشن شروع کرے گی۔‘
کابینہ کے اجلاس نے اس تجویز کی منظوری دیتے ہوئے انسپیکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) سندھ غلام نبی میمن کو اختیار دیا کہ وہ بلوچستان اور پنجاب کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ رابطہ قائم کریں تاکہ کچے کے علاقوں میں آپریشن کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔
کابینہ نے اس مشترکہ آپریشن کے لیے جدید ترین ملٹری گریڈ فیلڈ اور سرویلنس ہتھیاروں کی خریداری کے لیے دو ارب 79 کروڑ 60 لاکھ روپے کی منظوری دیتے ہوئے محکمہ داخلہ کو مذکورہ ہتھیاروں کی خریداری کے لیے وزارت داخلہ سے این او سی لینے کی ہدایت کی۔
کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف ایک اور آپریشن کا اعلان کتنا کارگر ہو گا؟
یہ پہلی بار نہیں کہ سندھ حکومت نے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف بھرپور آپریشن کا فیصلہ کیا ہوا۔ ماضی میں متعدد بار ایسے آپریشن کیے گئے۔
جن میں ڈاکوؤں سے مقابلہ کرتے ہوئے کئی پولیس افسران جان سے گئے۔ پولیس کی بلیٹ پروف بکتربند گاڑیوں میں جانے والے پولیس افسران بھی بچ نہ سکے۔
شکارپور کے سینیئر صحافی وحید پھلپوٹو نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ’ان ڈاکوؤں کے پاس ایسے جدید ہتھیار ہیں جن کے سامنے بلیٹ پروف گاڑیاں بھی بے کار ہوجاتی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ماضی میں پولیس نے آپریشن کے بعد ان ڈاکوؤں کے قبضے سے اینٹی ایئر کرافٹ گن بھی برآمد کی تھی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی سندھ کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنا کتنا مشکل ہے۔‘
تاہم سکیورٹی اداروں کے کچھ آپریشنز میں ڈاکوؤں کے کچھ گروہوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
مئی 2021 میں سندھ کے ضلع شکارپور کی تحصیل خان پور میں ڈاکوؤں سے مقابلے میں دو پولیس اہلکار اور پولیس کے فوٹوگرافر سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
جس کے بعد سندھ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جب تک تمام ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جائے گا یہ آپریشن جاری رہے گا۔
کچا کیا ہے اور کچے میں ڈاکو راج کیوں قائم ہے؟
شمالی سندھ کے اضلاع میں اغوا برائے تاوان، ہائی وی پر گاڑیوں سے لوٹ مار، بھتے وصولی کی وارداتیں 1990 کی دہائی کے اوائل سے جاری ہیں۔
شمالی سندھ نواضلاع پر مشتمل ہے جن میں گھوٹکی، جیکب آباد، سکھر، شکارپور، لاڑکانہ، کشمور، قمبر شہدادکوٹ، خیرپور اور دادو اضلاع شامل ہیں۔
ان میں اکثریت اضلاع کی سرحدیں دریائے سندھ سے ملتی ہیں جہاں کچے کا علاقہ ہے۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف مٹی کی موٹی دیواریں ہیں جوکہ دریا کا پانی باہر نکلنے سے روکتی ہیں۔
ان دیواروں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں دس کلومیٹر ہے تو کہیں دو کلومیٹر۔ جون اور جولائی کے بعد جب مون سون بارشیں ہوتی ہیں تو دریا کی پوری چوڑائی پانی سے بھری ہوتی ہے مگرسردوں میں دریا صرف درمیان میں ایک پتلی لکیر کی طرح بہتا ہے اور باقی علاقہ خالی رہتا ہے۔
دریا کے دونوں اطراف کی دیواروں کے درمیان والے علاقے کو کچا کہا جاتا ہے۔ شمالی سندھ کے کچے کا علاقہ ڈاکوؤں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماضی میں شمالی سندھ کے ڈاکو نیشنل ہائی وی پر ناکہ لگا کر ایک ہی رات میں سینکڑوں مسافر بسوں کو لوٹ لیتے تھے۔ جس کے بعد اس علاقے میں رات کو سفر کرنا مشکل ہوتا تھا اور بعد میں پولیس موبائلوں کے ساتھ قافلہ بنا کر مسافر بسوں کو یہاں سے گزارا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ ڈاکو بیوپاریوں اور ساہوکار لوگوں کو بھتے کی پرچی بھیجتے تھے اور بھتہ نہ دینے پر ان کو قتل کردیا جاتا تھا۔
ماضی میں شمالی سندھ کے امیر ترین سمجھے جانے والے ہندو ان ڈاکوؤں کے پسندیدہ شکار تھے جس کے باعث گذشتہ کچھ سالوں میں شمالی سندھ سے ہندوؤں کے بڑی تعداد کراچی منتقل ہوئی ہے۔
اسی طرح جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور اضلاع میں دریائے سندھ کے کچے کا علاقہ جو صوبہ سندھ تک تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر تک پھیلا ہے۔
جہاں ایک دہائی سے زائد عرصے تک ’چھوٹو گینگ‘ کا راج تھا۔ اس گروہ کا سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو تھا، جس نے جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ تک اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔
یہ گینگ کچا جمال اور کچا مورو کے نزدیک 2010 کے سیلاب کے بعد ظاہر ہونے والے دس کلومیٹر لمبے اور تین کلومیٹر چوڑے ’چھوٹو جزیرے‘ پر منتقل ہو گیا تھا اور یہ جزیرہ تمام فورس کے لیے کئی سالوں تک نوگو ایریا بنا رہا۔
آرمی پبلک سکول پشاور سانحے کے بعد پاکستانی فوج نے پورے پاکستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب کیا۔
جس کے بعد بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور امن امان کی بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کرنے لیے کراچی آپریشن کے ساتھ شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں بھی آپریشن شروع کیا۔
اس آپریشن میں پنجاب پولیس کے 1600 اہلکاروں نے حصہ لیا لیکن کئی پولیس اہلکاروں کو ڈاکؤوں نے یرغمال بنا لیا۔
جس کے بعد اپریل 2016 میں راجن پور سے متصل کچے میں پاکستانی فوج کی جانب سے جدید ہتھیاروں اور فوجی ہیلی کاپٹروں کے ساتھ 23 روز تک کیے جانے آپریشن ’ضرب آہن‘ میں چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول عرف چھوٹو نے اپنے 13 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دیے۔
آپریشن کے بعد پاکستانی فوج نے ملزمان کے پاس موجود 24 مغوی پولیس اہلکاروں کو بھی باحفاظت بازیاب کروا لیا تھا۔