دریائے سندھ میں سیلابی صورت حال ختم ہونے کے بعد کچے سے نقل مکانی کرنے والے افراد اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں۔
گڈو اور سکھر بیراج کے درمیان آٹھ لاکھ ایکڑ کچے کے علاقے میں سینکڑوں دیہات واقع ہیں، جہاں کے رہائشی کاشت کاری اور مویشی پال کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔
کچے کے لوگ اپنے مخصوص رہن سہن اور ماحول کی وجہ سے اپنے علاقوں میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن سیلاب نے ان کی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا۔
سکھر میں کچے کے علاقے کیٹی شاہو کے منظور جمالی نے بتایا کہ سیلاب کے باعث انہوں نے نقل مکانی دیر سے کی۔
’حکومتی سطح پر جو اعداد و شمار بتائے جا رہے تھے اس سے ہم خاصے مطمئن تھے کیونکہ چار پانچ لاکھ کیوسک پانی تو ہمارے علاقوں میں بمشکل داخل ہوتا ہے۔
’زیادہ تر ایک دو فٹ ہی پانی پہنچتا ہے، جس وجہ سے ہم لوگ نقل مکانی کرنے کی بجائے گھروں کو ہی ٹیلے پر منتقل کر لیتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم کچے کے لوگ یہیں پلے بڑھے ہیں تاہم اس بار ہم نے حکومتی اعداد و شمار پر اعتبار کیا جس وجہ سے ہمارے مویشیوں کا خاصا نقصان ہوا۔
’میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ پانی کا بہاؤ 10 لاکھ کیوسک سے زائد تھا۔
’ہم لوگوں کا ذریعہ معاش کاشت کاری اور مویشی ہیں۔ اب ہم گندم، چنے، مٹر اور سبزیوں کی کاشت کریں گے، اس کے لیے زمینیں ہموار کرنا شروع کر دی ہیں۔‘
کچو بھنڈی کے علی مراد شیخ نے بتایا کہ سیلاب کے باعث وہ حکومت کے فراہم کردہ امدادی کیمپس میں منتقل ہو گئے تھے۔
’تاہم وہاں خیموں، رہن سہن اور ماحول شہری علاقوں سے مطابقت نہیں رکھتا اسی لیے ہم لوگ وہاں رہتے ہوئے خوش نہیں تھے۔
’وہاں بہت مشکل سے وقت گزار رہے تھے، پانی کم ہوتے ہی اب ہم اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔
’ہمارے بچے اس ماحول میں اس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے مچھلی پانی میں خوش ہوتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی مراد شیخ نے بتایا کہ ماہی گیری اور کاشت کاری ان کا خاندانی کام ہے، اسی سے انہوں نے اپنی زندگی شروع کی۔
الخدمت فاؤنڈیشن سکھر کے سرپرست زبیر احمد نے بتایا کہ سیلابی صورت حال کے بعد ’ہماری جماعت نے سکھر زیرو پوائنٹ اور بند پر ایک بڑی خیمہ بستی بنائی تھی جس میں 250 خاندانوں کو رکھا گیا۔ ان میں اکثریت افراد اپنے جانور بھی ساتھ لائے تھے۔‘
زبیر احمد نے بتایا کہ کچے میں متاثر ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد نے نقل مکانی کی جبکہ بعض افراد اپنی سہولت کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے لیبر کالونی میں بنائے جانے والے ریلیف کیمپ سمیت دیگر مقامات پر ٹھہرے۔
’سکھر کے قریبی کچے کے علاقوں میں بعض قبائلی وجوہات اور سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے 50 سے زائد دیہات میں لگ بھگ 700 گھرانوں کے بعض افراد اور ان کے مویشی کچے میں موجود تھے، جنہیں ہماری جماعت کی جانب سے کھانا اور ان کے جانوروں کو چارہ فراہم کیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب الحمد اللہ سکھر زیرو پوائنٹ اور سکھر بند کی خیمہ بستی سے تمام افراد اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔‘