افغانستان کی ایک سابق خاتون جج نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد کہا ہے کہ وہ چھ ماہ سے اپنے گھر کے اندر بند ہیں۔ انہوں نے اپنا گھر نہیں چھوڑا کیوں کہ ان کی جان کو خطرہ تھا۔
انڈپینڈنٹ العربیہ سے گفتگو کے دوران سکیورٹی کی وجہ سے اس کی شناخت خفیہ رکھی گئی ہے اور انہیں’قدیسہ‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔
افغانستان کے کسی نامعلوم مقام سے دیے گئے انٹرویو میں قدیسہ نے کہا ہے کہ وہ صرف رات کو باغ میں جانے کی ہمت کرتی ہے کیوں کہ وہ پڑوسیوں کے دیکھے جانے سے بھی خوفزدہ ہیں۔
خواتین کے خلاف تشدد کے مقدمات کی سماعت کرنے والی 46 سالہ سابق جج نے خدشے کا اظہار کیا کہ انہیں ڈر تھا کہ اگر طالبان انہیں مل گئے تو وہ انہیں قتل کر دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ سیاسی پناہ کے پروگرام کے تحت برطانیہ آنا چاہتی تھیں لیکن حکام نے ان کی درخواست رد کر دی تھی۔
قدیسہ جنہیں سقوطِ کابل کے بعد روپوش ہونا پڑا کہتی ہیں کہ ’میں نے چھ ماہ سے گھر نہیں چھوڑا اور میں دن کے وقت باغ میں نہیں جا سکتی کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ پڑوسی مجھے دیکھیں، اس لیے میں صرف رات کو نکلتی ہوں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں گھری ہوئی محسوس کرتی ہوں اور رات میں اپنے ہی سائے سے ڈر جاتی ہوں اور ہر روز روتی ہوں۔ کبھی کبھی میں اپنی فائلوں، قانون کی کتابوں اور اپنی کپڑوں کو دیکھتی ہوں اور رونے لگتی ہوں۔‘
اس نے مزید کہا کہ تقریباً پانچ ماہ قبل اس کے بھائی نے انہیں بتایا کہ طالبان ارکان آئے اور پڑوسیوں سے براہ راست ان کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں اپنے ساتھیوں سے بھی چھپتی ہوں۔ میں کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔‘
سابق جج نے کہا کہ میرے ’ہاتھ کانپ رہے تھے‘ جب مجھے پتہ چلا کہ ان کی برطانیہ آنے کی درخواست گذشتہ جنوری میں مسترد کر دی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اعتراف کیا کہ ’میرے لیے یہ ماننا کتنا مشکل ہے کہ برطانیہ جیسے پرامن ملک نے جو انسانی حقوق کا سب سے زیادہ پابند ہے میری درخواست کو مسترد کر دیا۔ میں رو رہی تھی اور اب بھی رو رہی ہوں۔ میرا صدمہ سرحدوں سے ماورا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اخبار نے وزارت دفاع کی ایک ای میل کے مندرجات کو پڑھا ہے جن میں کہا گیا کہ قدیسہ منتقلی کی اہل نہیں ہیں حالانکہ ان کا خیال تھا کہ وہ برطانوی حکام کے ساتھ تعاون میں کام کرنے والے جج کے طور پر اپنے کردار کی وجہ سے اہل ہیں۔ حکومت اور وہ اس فیصلے کے خلاف اعتراض دائر کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ نے ستمبر 2021 میں انکشاف کیا تھا کہ 200 سے زائد خواتین جج اس خوف سے افغانستان میں چھپ گئیں کہ طالبان انہیں ان کے کام کی وجہ سے قتل کر دیں گے۔
طالبان پہلے ہی ہزاروں قیدیوں کو رہا کر چکے ہیں جن میں دہشت گرد اور القاعدہ کے سینیئر اراکین بھی شامل ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ان قیدیوں کی بڑی تعداد کو قید کرنے کے ذمہ دار جج ان کے آزاد ہونے کے بعد اپنی حفاظت کے لیے خوفزدہ ہیں۔