اگر راستے میں چلتے ہوئے، بس میں سفر کرتے ہوئے، سکول کالج آتے جاتے یا کسی جگہ کام کرتے ہوئے آپ پر کوئی آوازیں کسے یا جسمانی طور پر چھیڑ چھاڑ کرے اور گھر کے بڑے آپ سے کہیں، ’کوئی بات نہیں بیٹا، ایسا ہو جاتا ہے۔‘
سوچیے آپ کو کیسا لگے گا؟
یقیناً آپ اس بات کو ہضم نہیں کر پائیں گے اور صبر کی تلقین کرنے والے سے بیزار ہو جائیں گے، چاہے وہ آپ کا کوئی سگا رشتہ ہی کیوں نہ ہو۔
اگر آپ مرد ہیں تو آپ یقین نہیں کریں گے مگر ہم خواتین کو بچپن سے مختلف طریقوں سے ایسی حرکات پر خاموش رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
کبھی کسی سگے یا سوتیلے رشتے دار کی جنسی ہراسانی پر، کبھی محلے داروں کی گھٹیا نگاہوں پر، کبھی سکول کالج میں اپنے فیلوز یا اساتذہ کی حرکتوں پر تو کبھی آفس میں یا کسی کے گھر کام کرتے وقت کتنی ہی ہراسانیوں کا سامنا ہمیں خاموش رہ کر کرنا پڑتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نیا کیا بتانے آئی ہوں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ سب ہوتا ہے اور اس پر بہت گفتگو بھی ہو چکی۔ آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ آپ نے بھی صرف گفتگو ہی کی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر دوسرا شخص ایسے رویوں کی مذمت کرتا دکھائی دیتا ہے، لیکن جب راز کھلتے ہیں تو کتنی ہی خواتین کے اِن باکس ان مردوں کے قول و فعل میں تضاد کا شاخسانہ ثابت ہوتے ہیں۔
کتنے ہی لوگ بظاہر بہت پڑھے لکھے، دانشور، ادیب، شاعر اور غیرت مند قسم کے شہری بنے ہوئے ہوتے ہیں لیکن خواتین سے واسطہ پڑتے ہی ان کے اندر کا روایتی مرد سامنے آ جاتا ہے۔
ہم عورتیں بچپن سے اس قسم کی جنسی ہراسانیوں کا سامنا کرتے کرتے اس قدر عادی ہو جاتی ہیں کہ اگر کبھی زندگی میں واقعی کوئی تمیز دار آدمی مل بھی جائے تو اس سے بھی ڈر کے رہنا پڑتا ہے کہ کب وہ اس اعتماد کا تیا پانچا کر دے گا۔
ہمیشہ سے یہ سب سہتے سہتے میں سوچنے لگی کہ جب میں 30 سال سے اوپر ہو جاؤں گی تو چونکہ پاکستانی معیارات کے مطابق میں جوانی کی دہلیز پار کر چکی ہوں گی، تو شاید میرے ساتھ ہراسانی کے واقعات ہونا کم ہو جائیں گے۔
کیا جنسی ہراسانی کسی وائرل انفیکشن کی طرح ہے کہ بار بار ہونے کے بعد انسان کے اندر قدرتی مدافعت پیدا ہو جانی چاہیے؟
لیکن افسوس کہ یہ میری خام خیالی تھی کیونکہ ہمارے ہاں ہراساں کرنے کے لیے مد مقابل فریق کا بظاہر کم طاقت ور ہونا ہی کافی ہے۔
اب مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ عمر کے ہر حصے میں جنسی ہراسانی اذیت ناک ہوتی ہے۔ کتنا برا لگتا ہے جب آپ کو بازار میں جاتے ہوئے کوئی ہاتھ لگا جائے، جب کوئی مرد کولیگ بات کرتے ہوئے آپ کے سینے پر نظریں جما کر بات کرے، جب آپ چادر اور برقعے میں لپٹی ہوئی ہوں اور بس کا کنڈیکٹر بار بار آپ کے ساتھ مس ہو کر گزرے، آپ کسی کے گھر ملازمہ ہوں اور گھر کے مرد آپ کو پریشان کریں اور گھرمیں آنے والے رشتے دار سر پر ہاتھ رکھنے کے بہانے آپ کی کمر تک ہاتھ لے جائیں اور غلیظ مسکراہٹ کے ساتھ حال احوال دریافت کریں۔
اور جب کبھی ہم ان سب کے خلاف شکایت کریں تو ہمیں لباس درست کرنے، گھر سے باہر نہ نکلنے، باپ بھائی یا شوہر کے ہمراہ جانے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔ بدترین وہ مشورہ ہے جو کسی فراخ دل بزرگ خاتون یا مرد کی طرف سے آئے گا کہ اب تک تو تمہیں اس سب کی عادت ہو جانی چاہیے تھی۔
لطیفہ مشہور ہے کہ کسی نجومی نے ایک آدمی کا ہاتھ دیکھ کر کہا، ’تمہارے اگلے دو سال بہت تکلیف میں گزریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس آدمی نے خوش ہو کر کہا، ’اچھا، اس کا مطلب ہے بعد میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟‘
نجومی نے کہا، ’نہیں، پھر تم تکلیفوں کے عادی ہو جاؤ گے۔‘
کیا جنسی ہراسانی بھی ایسی ہی تکلیف ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسان کی جلد موٹی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس پر اثر نہیں ہوتا؟
کیا جنسی ہراسانی کسی وائرل انفیکشن کی طرح ہے کہ بار بار ہونے کے بعد انسان کے اندر قدرتی مدافعت پیدا ہو جاتی ہے؟
کیا جنسی ہراسانی بھی وہ تکلیف ہے کہ جس کا ہمارے معاشرے میں ہر عورت کو اس کا عادی ہو جانا چاہیے؟
کیا یہ موسمی تبدیلی کے جیسی ہے یا پھر معاشی تنگ دستی کی چادر ہے جس کو دیکھ کر اپنے پاؤں پھیلانے چاہییں؟
نہیں بھئی! یہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس کی عادت نہیں ہو سکتی اور اس پر ردعمل بھی اتنا ہی نیچرل ہے جتنا ہونا چاہیے۔
آپ اپنے بیٹوں کی تربیت کریں کہ وہ عورت کا نام سنتے ہی آپے سے باہر نہ ہو جایا کریں۔
آپ اپنی بیٹیوں کا حوصلہ بنیں تاکہ ایسے واقعات اور ذہنی اذیتوں کے بارے میں آ کر آپ کو بتا سکیں اور آپ انہیں سکول کالج سے نکالنے کی بجائے ان کا دکھ درد بٹا سکیں اور ان کے راستے کی مشکلیں ہٹانے میں معاون ثابت ہوں۔