وہ اگست 2016 کا ایک گرم دن تھا وکلاء عدالتوں کو جانے کی تیاری کررہے تھے کہ انہیں اطلاع ملی ایک وکیل کو قتل کردیا گیا ہے جس پر وکلاء کا ہجوم سول ہسپتال کی طرف امڈ آیااورہسپتال کے ایمرجنسی کے سامنے وکیل ہی وکیل نظر آرہے تھے جبکہ میڈیا کے کچھ لوگ اس واقعہ کی ویڈیو بنانے میں مصروف تھے اس دوران خود کش حملہ آور آیا اور ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کے بعد سول ہسپتال کا وہ احاطہ قیامت صغری کا منظر پیش کرنے لگا۔
سانحہ 8 اگست کی آج تیسری برسی منائی جارہی ہے اس حادثے میں میڈیا کے دو کیمرہ مین سمیت 73 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 56 وکلاء بھی شامل تھے۔
اس واقعہ کو گزرے تین سال ہوگئے لیکن اس کے گہرے اثرات لوگوں کے ذہنوں پر آج بھی ملتے ہیں اور اس کے متاثرین آج بھی اس واقعہ کے اثرات اوراپنے دوستوں و عزیز و اقارب کی کمی محسوس کرتے ہیں۔
اس واقعہ میں جان کی بازی ہارنے والے ایک سینئرو کیل قاہر شاہ بھی تھے جن کے فرزند نظام الدین سمجھتے ہیں چاہے جتنا عرصہ گز ر جائے بلوچستان میں ان کے والد اور دوسرے وکلا ء کا خلاء پر نہیں ہوسکتا ہم آج بھی اس پہاڑ جیسے سائے کی کمی کوشدت سے محسوس کرتے ہیں۔
نظام الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ: وہ بہت بڑا سانحہ تھا جس نے ہمیں بری طرح متاثر کیا اور میرے والد قاہر شاہ ایڈووکیٹ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے تاہم وہ اپنی قابلیت کی وجہ سے ان سے بڑے لگتے تھے۔
نظام الدین کے مطابق: آج بھی ہمیں وہ کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے معاشی حوالے سے ہمیں وقتی طور پر دھچکا ضرور لگا تھا تاہم وقت کے ساتھ یہ مسئلہ حل ہوتا گیا جس میں میرے والد کے بھائیوں نے میری بڑی حد تک مدد کی۔
نظام الدین بھی اپنے والد کے پیشے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور وہ ایل ایل بی تیسرے سال کے طالب علم ہیں۔
یاد رہے 8 اگست 2016 کو بلال انور کاسی ایڈووکیٹ ہدف بنا کر قتل کرنے کے بعد جب لاش سول سنڈیمن ہسپتال منتقل کیا گیا اس دوران وکلاء کے مجمعے میں خود کش حملہ آور نے خود کو اڑایا تھا جس میں وکلا کیساتھ چند صحافی بھی نشانہ بنے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ رپورٹ
سانحہ کے حوالے سے سپریم کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں چند سفارشات کی پیش کی تھیں بلوچستان کے وکلاء سمجھتے ہیں کہ کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی بلوچستان بار کونسل راحب خان بلیدی سمجھتے ہیں کہ اگر جسٹس قاضی عیسیٰ کی سانحہ 8اگست کے حوالے سے انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد ہوتا تو ہم کسی حد تک دہشتگردی کو روکنے میں کامیاب رہتے۔
راحب بلیدی کے بقول کمیشن کی رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی گئی ہیں وہ بلوچستان اور پاکستان کی خوشحالی کی ضمانت ہیں لیکن دوسری جانب اسی رپورٹ کی بنا پر آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ کی سفارشات
کیمشن کی رپورٹ میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دینے اوراداروں کوفعال کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی سرحدوں پر موثر نگرانی نہ ہونے کے باعث دہشت گرد باآسانی ملک میں داخل ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمیشن نے مدارس کی مانیٹرنگ اور رجسٹریشن سمیت نیکٹا کو فعال کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ نیکٹا کے قانون کو دہشت گردی کے خلاف موثر طور پر استعمال کیا جائے، کالعدم تنظیموں کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے اور دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا جائے، جبکہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نمائشی کارروائی کے بجائے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والے ہسپتال میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات تھے اور ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے والے آلات بھی دستیاب نہیں تھے، جس کی وجہ سے کئی قیمتی جانوں کو بچایا نہیں جاسکا۔ رپورٹ میں بلوچستان حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت میں اقربا پروری کا کلچر عام ہے، جبکہ 4 سیکریٹریز کو غیر قانونی طور پر تعینات کیا گیا ہے۔
تین سال بعد وکلا کہاں کھڑے ہیں؟
راحب خان بلیدی کے مطابق یہ بہت بڑا سانحہ تھا جس میں سپریم کورٹ کے بارہ وکلا بھی شامل تھے خلاء تو پورا نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن ہم نے اس کمی کو پورا کرنے کیلئے پانچ سو وکلا کو لائسنس جاری کروائے ہیں۔
واضح رہے بلوچستان حکومت کی طرف سے سانحہ میں ہلاک ہونیوالے وکلا کیلئے ایک کروڑ فی کس اور بچوں کیلئے تعلیم کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔
راحب بلیدی کے مطابق معاوضوں کی ادائیگی کا معاملہ تو حل ہوچکا ہے تاہم وکلا کے بچوں کی تعلیم اور جو وکلا حادثے میں زخمی ہوئے ان کے علاج کے حوالے سے مسائل اب بھی موجود ہیں۔
سانحہ 8اگست میں جان کی بازی ہارنے والے وکیل باز محمد کاکڑ کے نام پر بنائے گئے فاؤنڈیشن کے چیئرمین لال محمد کاکڑ سمجھتے ہیں بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے وکلاء کی اتنی بڑی تعداد کی کمی کا خلاء کا تو مدتوں پر نہ ہوگا۔
لال محمد کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جہاں اس حادثے نے ہمیں کئی سال پیچھے دھکیل دیا لیکن دوسری جانب اس سے لوگوں میں جذبہ بڑھ گیا اور آج وہ وکیل بن رہے ہیں۔
لال محمد کاکڑ کے مطابق میرے گھر سے تین لوگ قانون کی تعلیم حاصل کررہے ہیں جو لوگ قانون کی تعلیم سے واقف نہیں تھے وہ بھی اس طرف آرہے ہیں وہ وقت دور نہیں جب ہمارے پاس قابل وکلا کی نئی کھیپ موجود ہوگی۔
سانحہ 8 اگست کی تیسری برسی پر کوئٹہ میں وکلا نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کررکھا ہے دوسری جانب اس حوالے سے مختلف مقامات پر تعزیتی ریفرنسز کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔
لال محمد کاکڑ بھی اس بات سے نالاں ہیں کہ سانحہ کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ پر عمل درآمد نہ ہوسکا وہ کہتے ہیں واقعات پوری دنیا میں ہوتے ہیں لیکن وہاں ایسے واقعات کے بعد لوگ سنبھل جاتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں کرتے۔
حکومت کی طرف سے اقدامات اپنی جگہ لیکن لال محمد کاکڑ کہتے ہیں ہمیں خود بھی کچھ کرنا چاہیے انہوں نے شہدا کا مفت علاج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
لال محمد کاکڑ کہتے ہیں میں نے اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں اور اب تک میں نے شہدا کی لواحقین کے علاج پر اپنی جیب سے سولہ لاکھ تک خرچ کرچکا ہوں۔
گوکہ سانحہ 8آگست کو تین سال ہوچکے ہیں لیکن وکلابرادری کو اس حادثے کا شکار ہونیوالے سنیئر وکلاء کی کمی اور اس کی شدت انہیں آج بھی محسوس ہوتی ہے۔